پاکستان میں ایک سال قبل ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف اقتدار میں آ گئی تھی۔ تب سے اب تک ملکی کرنسی روپے کی قدر میں تقریباﹰ تیس فیصد کمی ہو چکی ہے اور عوام کی اکثریت پریشان تر ہے۔
اشتہار
پاکستانی صوبہ سندھ کے دارالحکومت، سب سے زیادہ آبادی والے شہر اور ملک کے تجارتی مرکز کراچی سے بدھ چوبیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ماضی کے کرکٹ ہیرو اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت اب تک اقتصادی طور پر جو اور جتنا کچھ بھی کرنا چاہتی تھی، وہ نہیں کر سکی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ ایک طرف اگر حکومت اپنے معاشی اور مالیاتی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی تو دوسری طرف بہت زیادہ مہنگائی اور دیگر عوامل کی وجہ سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور پریشانی بھی شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔
'نیا پاکستان‘
پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات پچھلے برس پچیس جولائی کو ہوئے تھے۔ الیکشن سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے وعدے یہ تھے کہ وہ اقتدار میں آ کر ایک 'نیا پاکستان‘ تعمیر کرے گی اور ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائے گی۔ لیکن یہ سب کچھ اب تک ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کے برعکس حکومت کو مالی ادائیگیوں کے عدم توازن کی صورت میں ایسے بحرانی حالات کا سامنا رہا، جو مسلسل اربوں ڈالر کے نئے بیرونی قرضوں کے حصول کی وجہ بنے۔
اس دوران یہ بھی ہوا کہ وہ پاکستانی ووٹر جو نئی ملکی حکومت کے مؤثر اقدامات کے نتیجے میں اپنے لیے روزمرہ زندگی میں کچھ آسانیوں کی امید لگائے بیٹھے تھے، اب کافی حد تک ناامید ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ان پاکستانی باشندوں کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بار بار کہے جانے والے یہ الفاظ تکلیف دہ حد تک غیر منطقی بن گئے ہیں کہ عوام کو ابھی مزید قربانیاں دینا ہوں گی اور 'گھبرانا نہیں ہے‘۔
روپے کی قدر میں تقریباﹰ ایک تہائی کمی
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستان کے پاس اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور اپنے ذمے ادائیگیوں کے لیے مالی وسائل کی بہت ناکافی دستیابی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ گزشتہ ایک سال میں روپے کی قدر میں 30 فیصد کے قریب تک کمی ہو چکی ہے اور افراط زر کی شرح بھی تقریباﹰ نو فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
کراچی کی رہائشی شمع پروین نامی ایک تیس سالہ خاتون نے سخت گرمی میں کافی دور تک پیدل جا کر سستی سبزیاں خریدنے کی کوشش کے دوران اے ایف پی کو بتایا، ''ٹماٹروں تک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ ہمارے لیے تو زندگی بہت ہی مشکل ہو گئی ہے۔‘‘
لاکھوں پاکستانی بچوں کا بچپن مشقت کی نذر
بارہ جون کو منائے جانے والے ’چائلڈ لیبر‘ کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قریب چار ملین بچے محنت مزدوری پر مجبور ہیں اور ان کا بچپن مشقت کی نذر ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پاکستان میں بچوں سے لی جانے والی مشقت
آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں محنت مزدوری پر مجبور قریب چالیس لاکھ بچے یا تو کوڑا چنتے ہیں، سڑکوں پر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے ہیں، ریستورانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر مختلف ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا پانچ سالہ عرفان مجید اپنے گیارہ سالہ بھائی کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں ایک ورکشاپ مکینک کے پاس دیہاڑی پر کام کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’بچے مزدوری نہ کریں تو گزارہ کیسے ہو؟‘
چھ سالہ گزشتہ دو برس سے تنویر مشتاق اپنے والد کے ساتھ گوشت کی ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ تنویر کے والد عمر مشتاق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ عارف والا سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلسل مہنگائی کے باعث اسے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی کام پر ڈالنا پڑا۔ اس کے بیٹوں کی طرح دو بیٹیاں بھی مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ’’میرے بچے بھی کام نہ کریں تو ہم سب کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
’میں نے خود ایسے کپڑے کبھی نہیں پہنے‘
ںور احمد اپنی عمر نہں جانتا۔ راولپنڈی میں ڈھوک پراچہ کے اس رہائشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ روزانہ اپنی ماں اور بھائی کے ہمراہ ویگن پر بیٹھ کر ریڈی میڈ شلوار کرتے بیچنے اسلام آباد آتا ہے۔ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں اور دو بھائی اس سے چھوٹے بھی ہیں،’’میری بڑی خواہش ہے کہ کسی عید پر میں خود بھی ایسا ہی کوئی نیا شلوار کرتا پہنوں، جیسے میں بیچتا ہوں۔‘‘ یہ کم سن مزدور روزانہ چار سو روپے تک کما لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شدید گرمی میں کمائی کا ذریعہ دستی پنکھے
پروین اختر اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں اپنی پھوپھو کے ہمراہ رہتی ہے۔ اس کے والدین سرگودھا کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ اس کے چار اور بہن بھائی بھی ہیں۔ اس کی پھوپھو اسے مزدوری کرانے کے لیے سرگودھا سے اسلام آباد لائی تھی۔ پروین نے بتایا کہ یہ دستی پنکھے اس کی امی اور خالہ گاؤں سے بنا کر بھیجتی ہیں۔ پروین نے کہا کہ اس کا خواب ہے کہ وہ بھی اپنے گاؤں کی دیگر بچیوں کی طرح اسکول جائے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بالغ چھاؤں میں، بچے دھوپ میں
اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل مکینک کی ورکشاپ پر کام کرنے والے یہ بچے دھوپ کی تپش کو نظر انداز کیے اپنی دیہاڑی کی خاطر اپنے کام میں مگن ہیں۔ مہنگائی، گھریلو غربت، والدین کی بیماری یا پیٹ کی بھوک، ان بچوں کی مجبوریوں کے بہت سے نام ہیں، جو ان سے ان کا بچپن چھین کر ان کے ہاتھوں میں کوڑے کے تھیلے یا مختلف اوزار پکڑا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک روٹی کے لیے لوہے کے کئی ٹکڑے
سڑکوں پر سارا دن گرمی، دھوپ یا بارش سے بے نیاز ایسے بچے کوڑے کرکٹ میں سے لوہے کے ٹکڑے، پلاسٹک اور دیگر ایسی چیزیں تلاش کرتے ہیں، جنہیں بیچ کر وہ ہر شام کچھ رقم اپنے ساتھ گھر لا جا سکیں۔ اس تصویر میں چار بچے اور دو ننھی منی بچیاں ایک میدان سے وہاں گری ہوئی لوہے کی کیلیں جمع کر رہے ہیں۔ یہ سوال بہت تکلیف دہ ہو گا کہ لوہے کے کتنے ٹکڑے جمع کیے جائیں تو ایک روٹی خریدی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
والدین سے چوڑیاں مانگنے کی عمر میں چوڑیاں بیچنے والی
اس ننھی سی بچی نے اپنا نام فیروزاں (فیروزہ) بتایا اور اسے چوڑیاں بیچتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ فیروزہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے اس کی والدہ گھر گھر جا کر چوڑیاں بیچتی تھی لیکن گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اب کراچی کمپنی نامی علاقے میں بس اڈے کے قریب فیروزہ اور اس کی والدہ زمین پر چادر بچھا کر چوڑیاں بیچتی ہیں۔ باقی مہینوں کی نسبت عید سے پہلے رمضان میں اس ماں بیٹی کی روزانہ آمدنی زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’اب ڈر نہیں لگتا‘
سات سالہ عمر خلیل ایک ایسی دکان پر پھل بیچتا ہے، جو اس کا والد ہر روز زمین پر لگاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلے اس کا والد جب اسے دکان پر چھوڑ کر اکثر پھل لینے منڈی چلا جاتا تھا، تو اسے بہت ڈر لگتا تھا۔ ’’اب مجھے اکیلے دکان چلانے کی عادت ہو گئی ہے اور ڈر بالکل نہیں لگتا۔‘‘ محض سات برس کی عمر میں حالات نے اس بچے کو ایسا دکاندار بنا دیا ہے، جو اکیلا بھی بڑی خود اعتمادی سے گاہکوں سے لین دین کر لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول کے بعد وین پر پھل فروشی
چودہ سالہ محمد رفیق آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کا والد ایک وین پر منڈی سے کوئی نہ کوئی پھل لا کر بیچتا ہے۔ شام کے وقت محمد رفیق اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے لیکن ڈاکٹری کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ رفیق کے والد نے کہا، ’’میں اپنے بیٹے کو ضرور ڈاکٹر بناؤں گا۔ میں اس کا خواب ہر صورت میں پورا کروں گا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کی مائیں در بدر
گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر کوڑے کا تھیلا کندھوں پر ڈالے یہ معصوم بچیاں دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتی ہیں۔ جہاں بھوک پیاس لگی، کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا، کہیں سے کچھ مل گیا تو ٹھیک، ورنہ آگے چل پڑیں۔ ان تینوں بچیوں کا تعلق اسلام آباد کے مضافات میں ایک کچی بستی سے ہے۔ گرمیوں کی تیز دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ سوچ ہی تکلیف دینے لگتی ہے کہ یہی بچیاں آنے والے کل کی مائیں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’کام ٹھیک کرو، ورنہ دیہاڑی ضبط‘
موٹر مکینک کا کام سیکھنے والے گیارہ سالہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جس دکان پر وہ دیہاڑی پر کام کرتا ہے، وہ ورکشاپ اس کے ماموں کی ہے۔ اس کا والد اس کی والدہ کو طلاق دے چکا ہے اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی نانی کے گھر رہتا ہے۔ عبداللہ نے بتایا، ’’ماموں بہت سخت آدمی ہیں، اگر کبھی کام ٹھیک نہ کروں تو مار پڑتی ہے۔ اس روز دیہاڑی کے سو روپے بھی نہیں ملتے۔ ایسی صورت میں ہم بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کھلونے خواب ہیں اور بھوک سچ
آئی نائن سیکٹر میں عید کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے اسٹال لگا کر یا زمین پر کپڑا بچھا کر مختلف چیزیں بیچنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے خوانچہ فروشوں میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ بیچ کر زندگی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ شدید گرمی میں یہ بچے ایسے گاہکوں کے انتظار میں رہتے ہیں، جو ان سے بس کچھ نہ کچھ خرید لیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ساری دنیا ایک ڈبے میں
آٹھ سالہ محمد رفیق اپنی گتے کے ایک ڈبے میں بند دنیا سر پر اٹھائے پہلے جگہ جگہ گھومتا ہے۔ اب اسے راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ میں ہر روز ایک فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر چیزیں بیچتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ دو تین مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ محمد رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کچی بستی میں رہتے ہیں۔ میری دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔ میرے ابو اخبار بیچتے ہیں۔ ہم سب مل کر اپنا گھر چلاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
13 تصاویر1 | 13
اسی طرح ایک 60 سالہ شہری محمد اشرف نے کہا کہ وہ مہندی فروخت کرتے ہیں اور اب انہیں اپنے خاندان کے کم از کم روزانہ اخراجات پورا کرنے کے لیے ایک ہزار روپے تک کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں پورا دن محنت کر کے بھی بمشکل پانچ چھ سو روپے کما پاتا ہوں۔ میرے روزانہ کے اخراجات ویسے بھی پورے نہیں ہو رہے۔ اگر کسی دن میں بیمار پڑ گیا، تو میں نہ تو ڈاکٹر کی فیس ادا کرنے کے قابل ہوں گا اور نہ ہی کوئی دوائی خرید سکوں گا۔‘‘
آبادی میں بہت تیز رفتار اضافہ بھی بڑا مسئلہ
پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ اس کی بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ لیکن ملکی افرادی قوت کا بہت بڑا حصہ گھریلو خواتین پر مشتمل ہونے یا بےروزگار ہونے کی وجہ سے ملکی اقتصادی ترقی میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ اس کے علاوہ ملک میں ٹیکسوں کی ادائیگی کا اوسط فی کس رجحان بھی ناامید کر دینے کی حد تک کم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ابھی حال ہی میں پاکستان کے لیے کم از کم چھ ارب ڈالر کے نئے قرضوں کی منظوری تو دے دی، لیکن ملکی معیشت کو اس کے باوجود وسط یا طویل المدتی بنیادوں پر کوئی سنبھالا نہیں مل سکے گا۔
بیرون ملک آباد شہریوں کی وطن بھیجی گئی رقوم، ٹاپ ٹین ممالک
بیرونی ممالک سے رقوم کی ترسیل کئی ترقی پذیر ممالک کی معیشت میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ 2018 میں بیرون ملک آباد شہریوں کی اپنے وطن بھیجی گئی رقوم ترقی پذیر ممالک کو بھیجی گئی کل رقوم کا نصف سے بھی زائد بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
1۔ بھارت
بھارت میں اس برس 80 بلین ڈالر کی رقوم دیگر ممالک سے منتقل ہوئیں جو کہ گزشتہ برس کی نسبت پندرہ فیصد زائد ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس اضافے کی ایک بڑی وجہ کیرالا میں شدید سیلاب بھی بنے، جن کے بعد بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں نے اپنے اہل خانہ کی مدد کے لیے اضافی رقوم بھجوائیں۔ خلیجی ممالک سے رقوم کی ترسیل میں بارہ فیصد کمی دیکھی گئی۔ یہ رقوم بھارتی جی ڈی پی کا 2.8 فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
2۔ چین
چین میں بیرونی ممالک سے اس برس 67.4 بلین ڈالر بھیجے گئے۔ اس برس بھی دیگر ممالک میں مقیم چینی شہریوں کی جانب سے وطن بھیجی گئی رقوم براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے زیادہ رہیں۔
تصویر: Imago/PPE
3۔ میکسیکو
اس برس میکسیکو میں دیگر ممالک سے 33.7 بلین ڈالر بھیجے گئے، جن میں سے زیادہ تر تارکین وطن نے بھیجے تھے۔ ورلڈ بینک کے مطابق آئندہ برس بھی بیرون ملک آباد میکسیکو کے شہریوں کی جانب سے رقوم کی ترسیل میں اضافہ جاری رہنے کی توقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
4۔ فلپائن
چوتھے نمبر پر فلپائن ہے، جہاں اس برس دیگر ممالک میں مقیم فلپائنی شہریوں نے 33 بلین ڈالر بھیجے۔ یہ رقم فلپائن کی مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Holger Ernst
5۔ مصر
گزشتہ برس کی نسبت چودہ فیصد اضافے کے ساتھ مصر کے تارکین وطن شہریوں نے 25.7 بلین ڈالر واپس اپنے وطن بھیجے۔ یہ رقوم مصری جی ڈی پی کا قریب گیارہ فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
6۔ نائجیریا
چھٹے نمبر پر افریقی ملک نائجیریا ہے، جہاں اس برس 25.1 بلین ڈالر بھیجے گئے، جن میں سے زیادہ تر نائجیرین تارکین وطن نے بھیجے۔ بیرون ممالک سے بھیجی گئی یہ رقوم ملکی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. U. Ekpei
7۔ پاکستان
رواں برس پاکستان کو دیگر ممالک سے قریب 21 بلین ڈالر موصول ہوئے، جو گزشتہ برس کی نسبت 6.2 فیصد زیادہ ہے۔ زیادہ تر بیرون ملک آباد پاکستانی شہریوں کی جانب سے بھیجی گئی یہ رقوم ملکی جی ڈی پی کا 6.9 فیصد بنتی ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس برس سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم میں گزشتہ برس کے مقابلے میں چھبیس فیصد کی کمی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
8۔ یوکرائن
آٹھویں نمبر پر یوکرائن ہے، جہاں اس برس بیرون ملک آباد یوکرانی باشندوں اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی مد میں 16.5 بلین ڈالر بھیجے گئے۔ یہ رقوم یوکرائن کی مجموعی قومی پیداوار کا 13.8 فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Supinsky
9۔ بنگلہ دیش
سن 2018 کے دوران بنگلہ دیش میں بیرون ملک سے سولہ بلین ڈالر بھیجے گئے۔ اس برس بنگلہ دیش میں بھی خلیجی ممالک سے بھیجی جانے والی رقوم میں ایک چوتھائی کی کمی دیکھی گئی۔
تصویر: DW
10۔ ویت نام
ورلڈ بینک کے مطابق دسویں نمبر پر ویتنام ہے، جہاں رواں برس 15.9 بلین ڈالر دیگر ممالک سے منتقل کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
عمران خان کی حکومت اب تک پاکستان کے چین اور سعودی عرب جیسے دوسمت ممالک سے بھی اربوں ڈالر کے نئے قرضے لے چکی ہے مگر پھر بھی پاکستانی معیشت کو درپیش اس کے موجودہ مسائل ایک ایسا کنواں ثابت ہو رہے ہیں کہ جس میں جتنے بھی وسائل ڈالے جائیں، وہ بظاہر کوئی تہہ نہ ہونے کی وجہ سے بھرا ہی نہیں جا سکتا۔
فوری نتائج کا فقدان
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اپنے طور پر اصلاحات، سماجی بہتری اور اقتصادی ترقی کی کوششیں تو کر رہی ہے لیکن اگر فوری نتائج دیکھنے میں نہیں آ رہے تو زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی قابل فہم ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ عوام میں بددلی بڑھتی جا رہی ہے۔
کراچی میں سبزیاں بیچنے والے ایک 35 سالہ دکاندار محمد عمران نے کہا کہ مہنگائی اتنی زیادہ اور حقیقی آمدنی اتنی کم ہو گئی ہے کہ وہ اب اپنے ذمے قرضوں کی ادائیگی کے قابل ہی نہیں رہا، ''آپ بتائیں، میں کیا کروں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ کسی دن میں خود کشی کر لوں گا۔‘‘
م م / ع ب / اے ایف پی
دنیا کی کمزور اور مضبوط ترین کرنسیاں
ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی پانچ مضبوط ترین اور پانچ کمزور ترین کرنسیاں کون سے ممالک کی ہیں اور پاکستانی روپے کی صورت حال کیا ہے۔ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
1۔ کویتی دینار، دنیا کی مہنگی ترین کرنسی
ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالیت کویتی دینار کی ہے۔ ایک کویتی دینار 3.29 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Al-Zayyat
2۔ بحرینی دینار
دوسرے نمبر پر بحرینی دینار ہے اور ایک بحرینی دینار کی مالیت 2.65 امریکی ڈالر کے برابر ہے اور یہ ریٹ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اتنا ہی ہے۔ کویت کی طرح بحرینی معیشت کی بنیاد بھی تیل ہی ہے۔
تصویر: imago/Jochen Tack
3۔ عمانی ریال
ایک عمانی ریال 2.6 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس خلیجی ریاست میں لوگوں کی قوت خرید اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت نے نصف اور ایک چوتھائی ریال کے بینک نوٹ بھی جاری کر رکھے ہیں۔
تصویر: www.passportindex.org
4۔ اردنی دینار
اردن کا ریال 1.40 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ دیگر خلیجی ممالک کے برعکس اردن کے پاس تیل بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیشت مضبوط ہے۔
تصویر: Imago/S. Schellhorn
5۔ برطانوی پاؤنڈ
پانچویں نمبر پر برطانوی پاؤنڈ ہے جس کی موجودہ مالیت 1.3 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک برطانوی پاؤنڈ کے بدلے امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت 1.2 اور زیادہ سے زیادہ 2.1 امریکی ڈالر رہی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
پاکستانی روپے کی صورت حال
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ دنوں کے دوران مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں کم از کم مالیت 52 اور 146 پاکستانی روپے کے درمیان رہی اور یہ فرق 160 فیصد سے زائد ہے۔ سن 2009 میں ایک امریکی ڈالر 82 اور سن 1999 میں 54 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
بھارتی روپے پر ایک نظر
بھارتی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں مستحکم رہی۔ سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر قریب 42 بھارتی روپوں کے برابر تھا جب کہ موجودہ قیمت قریب 70 بھارتی روپے ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم مالیت کے مابین فرق 64 فیصد رہا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
5 ویں کمزور ترین کرنسی – لاؤ کِپ
جنوب مشرقی ایشائی ملک لاؤس کی کرنسی لاؤ کِپ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچویں کمزور ترین کرنسی ہے۔ ایک امریکی ڈالر 8700 لاؤ کپ کے برابر ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کرنسی کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سن 1952 میں اسے کم قدر کے ساتھ ہی جاری کیا گیا تھا۔
4۔ جمہوریہ گنی کا فرانک
افریقی ملک جمہوریہ گنی کی کرنسی گنی فرانک ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چوتھی کمزور ترین کرنسی ہے۔ افراط زر اور خراب تر ہوتی معاشی صورت حال کے شکار اس ملک میں ایک امریکی ڈالر 9200 سے زائد گنی فرانک کے برابر ہے۔
تصویر: DW/B. Barry
3۔ انڈونیشین روپیہ
دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی کرنسی دنیا کی تیسری کمزور ترین کرنسی ہے۔ انڈونیشیا میں ایک روپے سے ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ ہیں۔ ایک امریکی ڈالر 14500 روپے کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت بھی آٹھ ہزار روپے سے زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Zuma Press/I. Damanik
2۔ ویتنامی ڈانگ
دنیا کی دوسری سب سے کمزور ترین کرنسی ویتنام کی ہے۔ اس وقت 23377 ویتنامی ڈانگ کے بدلے ایک امریکی ڈالر ملتا ہے۔ بیس برس قبل سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر میں پندرہ ہزار سے زائد ویتنامی ڈانگ ملتے تھے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر پالیسیاں اختیار کرنے کے سبب ویتنامی ڈانگ مستقبل قریب میں مستحکم ہو جائے گا۔
تصویر: AP
1۔ ایرانی ریال
سخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملک ایران کی کرنسی اس وقت دنیا کی سب سے کمزور کرنسی ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 42100 ایرانی ریال کے برابر ہے۔ سن 1999 میں امریکی ڈالر میں 1900 ایرانی ریال مل رہے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم ترین اور زیادہ ترین ایکسچینج ریٹ میں 2100 فیصد تبدیلی دیکھی گئی۔