پاکستانی رویے میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی، اعلیٰ امریکی جنرل
عاطف بلوچ، روئٹرز
29 نومبر 2017
افغانستان متعین امریکی جنرل نے کہا ہے کہ امریکی صدر کی اسلام آباد کے خلاف سخت پالیسی کے باوجود پاکستان نے جنگجوؤں کی مدد کرنا ختم نہیں کی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان جنگجوؤں کو ٹھکانے فراہم کیے ہوئے ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی جنرل جان نکلسن کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان ایسے جنگجوؤں کو بدستور مدد فراہم کر رہا ہے، جو افغانستان میں امریکی اور کابل حکومت کے مفادات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان ’افراتفری پھیلانے والے عناصر‘ کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ اس اعلیٰ امریکی جنرل نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں سخت پالیسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور انہوں نے جنگجوؤں کے خلاف پاکستانی موقف میں کوئی تبدیلی نوٹ نہیں کی ہے۔
امریکی حکام افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پاکستانی کردار کو اہم قرار دیتے ہیں لیکن بارہا زور دینے کے باوجود وہ اسلام آباد حکومت سے اپنے ایسے مطالبات نہیں منوا سکے ہیں کہ وہ افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں پر قائم انتہا پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کو غیر فعال بنا دے۔ ان میں حقانی نیٹ ورک بھی آتا ہے، جس کے بارے میں کابل اور واشنگٹن حکومتوں کا کہا کہ اس شدت پسند گروہ کے پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات ہیں۔
اگست میں ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے لیے اپنی انتظامیہ کی نئی پالیسی وضع کی تھی، جس میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ طالبان جنگجوؤں کو مدد فراہم کرنے کی اپنی حکمت عملی کو ختم کر دے۔ امریکی صدر کی اس سخت پالیسی پر پاکستان میں غم و غصے کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ تب پاکستان کی سول حکومت نے امریکا کو مکمل یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ حقانی سمیت دیگر جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار ہیں۔
جنرل جان نکلسن نے کہا ہے کہ وعدوں کے باوجود پاکستان کی طرف سے ان جنگجوؤں کے خلاف اقدامات نہیں کیے گئے ہیں، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ وہ تبدیلیاں آئیں گی، جن کا پاکستان نے وعدہ کیا ہے۔ ہم پاکستان کے ساتھ مل کر ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کو تیار ہیں، جو سرحد پار کرتے ہیں۔‘‘ جنرل نکلسن نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں ہے جبکہ نچلی سطح کی لیڈر شپ افغانستان میں۔
جنرل نکلسن کے مطابق وہ دیگر اعلیٰ امریکی حکام سے متفق ہیں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ روابط ہیں۔ امریکا نے سن دو ہزار بارہ میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکا کی ہرممکن مدد کی ہے۔
فور اسٹار جنرل نکلسن نے مزید کہا کہ مغربی افغانستان میں فعال طالبان کے ایران سے بھی روابط ہیں۔ افغانستان میں حالیہ عرصے میں طالبان کے حملوں میں اضافے کی وجہ سے امریکا نے اس شورش زدہ ملک میں اضافی تین ہزار فوجی تعینات کیے ہیں۔ جنرل نکلسن نے کہا ہے کہ ان میں سے ایک ہزار فوجی طالبان کے خلاف لڑائی میں شریک مقامی فوجیوں کو تربیت اور مشاورت کا کام کریں گے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔