1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سائنسدان نے عالمی تحقیقی مقابلہ جیت لیا

31 جولائی 2022

ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر وسیم سجاد کی تحقیق نےگلوبل آئیڈیا مارکیٹ کا مقابلہ جیت لیا ہے ۔ فیوچرارتھ اور بیل مونٹ فورم کرۂ ارض پر بڑھتے کاربن کے اخراج کو روکنے سے متعلق تحقیقات کے لیے ہربرس اس مقابلےکا انعقاد کرواتا ہے۔

Dr. Sajjad
تصویر: Privat/Dr. Sajjad

پاکستان میں مون سون کی قبل از وقت اورغیر معمولی بارشوں کے باعث  سندھ اور بلوچستان کا ایک بڑا علاقہ فی الوقت شدید سیلاب کی زد میں ہے۔ این ڈی ایم اے کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 149 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کی بدترین کارکردگی پر سوالیہ نشان تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ  یہ کئی اور انتہائی سنجیدہ نوعیت کے سوالات کو بھی جنم دیتی ہے۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں اور کاربن کا اخراج ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کوئلے کے استعمال کو ترک کرنے اور دیگر قابل تجدید  توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے؟ حالانکہ  پاکستانی جامعات میں اس حوالے سے  غیر معمولی تحقیق ہو رہی ہے۔

پاکستان کے ایک ایسے ہی  قابل فخر سپوت نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وسیم سجاد ہیں جن کی کاربن کے خاتمے اور دیگر نامیاتی مرکبات سے توانائی کے حصول سے متعلق تحقیق نے 'گلوبل آئیڈیا مارکیٹ سیسٹین ابیلیٹی اینڈ انوویشن 2022 ء‘‘کا عالمی مقابلہ حال ہی میں جیتا ہے۔

ڈاکٹر وسیم سجاد کی تحقیق

 ڈاکٹر وسیم سجاد مائیکرو بایولوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چُکے ہیں اورنیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسزکے بایو لوجیکل سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے  ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔  ڈاکٹر سجاد نے ڈوئچے ویلے  کو بتایا کہ انہوں نے کچھ عرصے قبل فیوچر ارتھ اور  بیل مونٹ فورم کے تحت ہونے والے عالمی تحقیقی مقابلے کے لیے  ا پنی تحقیق پرمبنی تین منٹ دورانیے  کی پریزینٹیشن بھیجی تھی۔

’بلین ٹری سونامی‘: کامیابی حیرت انگیز ہے، ڈبلیو ڈبلیو ایف

  یہ فورم دنیا بھر میں  ہونے والی ایسی تحقیقات کو  فروغ دیتا ہے  جن کا  مرکز کرۂ ارض سے کاربن  کا خاتمہ اور قدرتی و حیاتیاتی اجزاء سے صاف توانائی کا حصول ہو۔ اس  مقصد کے لیے  یہ فورم ہر برس دنیا بھر  سے تحقیقات  پر پوسٹرز، پریزینٹیشن  یا ویڈیوز کی  کال دیتا ہے۔  اس طرح سائنسدانوں ، محققین ، تھنک ٹینکس اور پالیسی میکرز کو ماحولیاتی تبدیلیوں کو لگام ڈالنے کے لیے مستقبل کے اہداف مقرر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد کے سائنسدان ڈاکٹر وسیم سجاد تصویر: Privat/Dr. Sajjad

ڈاکٹر سجاد کے مطابق ان کی ایوارڈ یافتہ تحقیق کا فوکس مائیکرو ایل جی  سے متعلق ایسی  جدید ٹیکنالوجی ہے جو ناصرف کاربن کی مقدار گھٹانے میں مددگار ہے بلکہ یہ قابل تجدید صاف توانائی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔گرین ہاؤس سولر واٹر ہیٹر، پاکستانی نوجوان کے خیال کو پہلا انعام

 

ڈاکٹر سجاد کی تحقیق میں نیا کیا ہے؟

ڈاکٹر وسیم سجاد نے  ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کاربن کا بڑھتا ہوا اخراج ایک عالمی مسئلہ ہے  جس سے متعلق نئی تحقیقات آئے روز منظر عام پر آتی رہتی ہیں ۔ ڈاکٹر سجاد کے مطابق ان کی تحقیق اس حوالے سے منفرد ہے کہ مائیکرو ایل جی کی نشونما کے لیے کسی فارم لینڈ اور حیاتیاتی کھاد  کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی گروتھ میں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے ۔ پاکستان اس حوالے سے بلین ٹری سونامی اور پلانٹیشن کے دیگر منصوبوں پر کافی عرصے سے کام کر رہا ہے مگر یہ مشقت اور وقت طلب کام ہیں۔

ڈاکٹر سجاد  کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کے بر عکس مائیکرو ایلجی  کی پانی میں  ہراس جگہ نشونما ممکن ہے جہاں سورج کی مناسب روشنی دستیاب ہو۔  اس کے ساتھ ہی  یہ مائیکرو ایلجی دیگر صنعتوں جیسے فارما سیوٹیکل،  ایکوا کلچر وغیرہ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں جو ان کی تحقیق کا پلس پوائنٹ ہے۔

ڈاکٹر سجاد کی تحقیق  کاربن کی مقدار گھٹانے میں کتنی معاون ہے؟

ڈاکٹر وسیم سجاد نے  ڈوئچے ویلے کو اپنی انعام یافتہ تحقیق  کی تفصیلات   دیتے بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیق کا سارا ماڈل  کاربن کریڈٹس کی بنیاد پر ہے۔ آپ آسان الفاظ میں اسے کچھ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ  کیوٹو پروٹوکول کے مطابق ہر ملک کے لیے ایک خاص مقدار مقرر کی گئی  ہے کہ وہ اتنا کاربن توانائی یا صنعتی ضروریات کے لیے خارج کر سکتا ہے۔  مگر زیادہ تر خصوصاً ترقی یافتہ ممالک اس مقررہ حد سے کہیں زیادہ کاربن کا اخراج کر رہے ہیں۔

بلین ٹری سونامی، جرمنی کی طرف سے مالی امداد کا وعدہ

بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں اور کاربن کا اخراج ہےتصویر: Privat/Dr. Sajjad

لہذا دنیا بھر کے  سوشل سیکٹرز ایسے  پراجیکٹس کو  سامنے لا  رہے ہیں جو کاربن کے اخراج اوراس کے انجذاب ( کیچر) کو  متوازن کر سکیں۔  ڈاکٹر سجاد کے مطابق ان کی مائیکرو ایلجی بیسڈ تحقیق پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ہے جن کا عالمی کاربن کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے مگروہ شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔ ایسے ممالک عالمی سطح پر کاربن بیلنس کرنے میں معاونت کر سکتے ہیں۔

کیا پاکستان کے لیے کول کو مکمل طور پر تر ک کرنا ممکن ہوگا؟

ڈاکٹر وسیم سجاد نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا  کہ پاکستان  توانائی کے حصول کے لیے زیادہ تر ہائیڈرو پاور اور کول پاور پلانٹس پر انحصار کرتا ہے ۔ دیگر قابل تجدید  توانائی کے ذرائع پر پاکستان کا انحصار ابھی کم ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان  میں بائیو ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس کی مدد سے کیمیائی مرکبات کے استعمال کو کم کرنے اور ری سائیکلڈ نامیاتی و حیاتیاتی مرکبات  کے استعمال کو فروغ ملتا ہے۔

ڈاکٹر سجاد کے  مطابق ان کا تحقیقی ماڈل پاکستان کے لیے ایک  آئیڈیل ماڈل ہے جس کی مزید تفصیلات وہ پروفیشنل پابندیوں کی وجہ سے فی الوقت شیئر نہیں کر سکتے۔ مگر انہیں یقین ہے کہ اگر حکومت اور پالیسی میکرز درست سمت میں صحیح اقدامت کرتے ہوئے  بائیو ٹیکنالوجی پر فوکس کریں تو  پاکستان با آسانی اپنے کول پاور پلانٹس کو بند کر کے دیگر محفوظ اور کاربن فری ذرائع سے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ 

 

 

 

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں