پاکستانی سفیروں کی مجوزہ کانفرنس، ٹرمپ کی جنوبی ایشیا پالیسی
عبدالستار، اسلام آباد
4 ستمبر 2017
خطے اور بین الاقوامی صورتِ حال پر پاکستانی پالیسی کو حتمی شکل دینے کے لئے پاکستانی سفیروں کی کانفرنس 5 ستمبر کو ہو گی۔ اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی اس کانفرنس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
اشتہار
امریکہ، روس، چین ، ایران، سعودی عرب، ترکی، برطانیہ اور بیلجیئم سمیت کئی اہم ممالک میں متعین پاکستانی سفیراس کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ مبصرین کے مطابق اس کانفرنس میں افغانستان اور امریکی پالیسی برائے جنوبی ایشیاء مرکزِ بحث رہے گی۔
دفترِ خارجہ کے ایک اہم عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ’’اس طرح کی کانفرنسوں میں خارجہ پالیسی کی ترجیحات کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے اور علاقائی و بین الاقوامی منظر نامے پر تفصیل سے بحث کی جاتی ہے۔کانفرنس کے ابتدائی سیشن میں خواجہ آصف خطاب کریں گے اور اختتامی سیشن میں وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی خطاب کریں گے۔‘‘
معروف تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’میرے خیا ل سے کانفرنس میں سب سے اہم نکتہ جنوبی ایشیاء کے لئے امریکی پالیسی ہوگی اور اس میں امریکہ کی طرف سے آنے والے سخت بیانات اور الزامات زیرِ بحث آئیں گے۔ میرے خیال میں اس بات پر بحث کی جائے گی کہ امریکہ کے خطے میں مقاصد کیا ہیں اور پھر ان مقاصد کی روشنی میں ہی سفیر اپنی تجاویز پیش کریں گے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے دعویٰ کیا، ’’امریکا خطے میں استحکام نہیں چاہتا، امکان ہے کہ یہ کانفرنس افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے خطے کے ممالک کو اعتماد میں لینے کی بات کرے گی کیونکہ یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں استحکام نہیں چاہتا اور وہ وہاں اپنی موجودگی بر قرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ ایران، چین، روس اور وسطی ایشیا پر نظر رکھی جا سکے۔‘‘
سابق سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں کانفرنس کوئی سخت موقف نہیں اپنائے گی کیونکہ پاکستان پہلے ہی سخت نکتہ نظر کا اظہار کر چکا ہے، پاکستان کہے گا کہ اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہیں حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے تو ہمیں دیں اور ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے، لیکن پاکستان اپنے اس موقف کا اعادہ بھی کرے گا کہ ایسا کوئی نیٹ ورک اب پاکستانی سرزمین پر نہیں ہے بلکہ ٹی ٹی پی والے افغانستان کی سرزمین، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
سابق سفیر فوزیہ نسرین کہنا تھا کہ ایران اور سعودی تعلقات کو بھی اس کانفرنس میں زیرِ بحث لایا جائے گا۔ ’’پاکستان کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں ایک توازن قائم ہوکیونکہ دونوں ممالک پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نقطہٴ نظر سے انتہائی اہم ہیں۔‘‘
دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے اس کانفرنس کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں پاکستان امریکی الزامات سے بہت زیادہ ناراض ہے ۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ واشنگٹن بھارت کو افغانستان میں کوئی کردار دینا چاہتا ہے۔ ممکنہ طور پر وہ کردار کیا ہو سکتا ہے اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے۔ یہ وہ سوالات ہیں، جن پر یقیناًاس کانفرنس میں بات چیت ہوگی۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کے الزامات کو بھی زیرِ بحث لایا جائے گا۔ پاکستان یہ کہہ گا کہ حقانی نیٹ ورک کا ہماری سرزمین پر کوئی وجود نہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے کہا، ’’افغانستان میں سرحد پار حملوں کو روکنے کا بہترین حل یہ ہے کہ باڈر پر باڑ لگا دی جائے۔ پاکستان کا موقف باڑ کے مسئلے پر بڑا واضح ہے اور میر ے خیال میں اس کانفرنس کو اس مسئلے پر بات چیت کرنی چاہیے اور بین الاقوامی برادری کو بتانا چاہیے کہ خطے میں امن کے لئے یہ باڑ اور باڈر کی موثر نگرانی بہت ضروری ہے۔
پاکستان: گزشتہ ایک عشرے کے بدترین دہشت گردانہ حملے
پاکستان نے 2001ء میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے ہی اسے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ ایک عشرے کے خونریز ترین بم دھماکوں پر ایک نظر !
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt
2007ء: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ
اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب بے نظیر اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پہلی مرتبہ واپس پاکستان پہنچی تھیں اور ایک جلوس میں شریک تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اُسی برس ستائیس دسمبر کو ایک خود کش حملے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Khawer
2008ء: واہ کینٹ میں حملہ
اکیس اگست سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کے نواح میں واقع واہ کینٹ میں اسلحہ کی ایک فیکٹری (پی او ایف) میں ہوئے دوہرے خود کش بم دھماکے کے باعث چونسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخی میں کسی فوجی تنصیب پر بدترین حملہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2008ء: اسلام آباد کے لگژری ہوٹل پر حملہ
بیس ستمبر کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار میریٹ ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اس حملے میں دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ غیرملکی بھی شامل تھے جبکہ زخمی خیر ملکیوں کی تعداد پندرہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Matthys
2009ء: پشاور میں حملہ
اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار نو کو پشاور کے ایک مرکزی بازار میں ہوئے ایک کار بم حملے کے نتیجے میں ایک سو پچیس جانیں ضائع ہو گئی تھیں جبکہ زخمیوں کی تعداد دو سو سے بھی زائد تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Majeed
2009ء: لاہور نشانے پر
دسمبر میں پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کی مون مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔
تصویر: DW/T.Shahzad
2010ء: والی بال میچ کے دوران حملہ
سن دو ہزار دس میں پاکستان کے لیے یکم جنوری کا دن ہی اداسی لے کر آیا تھا۔ اس دن بنوں ضلع میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا، جب لوگ والی بال کا ایک میچ دیکھنے ایک گراؤنڈ میں جمع تھے۔ اس کارروائی میں ایک سو ایک افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Azam
2010ء: احمدیوں پر حملہ
اٹھائیس مئی کے دن لاہور میں اقلیتی احمدیوں کی دو مساجد پر حملہ کیا گیا، جس میں بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
تصویر: Getty Images/N. Ijaz
2010ء: ایک قبائلی مارکیٹ میں حملہ
تین ستمبر سن دو ہزار دس کو قبائلی علاقے مومند میں ایک مصروف مارکیٹ کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک سو پانچ افراد لقمہٴ اجل بنے۔ بعد ازاں پانچ نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس مرتبہ انتہا پسندوں نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
2011ء: ڈیرہ غازی خان اور چارسدہ میں تباہی
تین اپریل سن دو ہزار گیارہ کو دو خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک صوفی مزار کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پچاس افراد مارے گئے۔ اس برس تیرہ مئی کو بھی دو خود کش بمباروں نے چارسدہ میں واقع پولیس کی ایک تربیت گاہ کو ہدف بنایا، اس خونریز کارروائی کی وجہ سے اٹھانوے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Ahmed
2013ء: اقلیت پر حملے
سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ بائیس ستمبر کو پشاور میں اس وقت بیاسی افراد مارے گئے تھے، جب دو خود کش بمباروں نے شہر میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2014ء: اسکول پر بہیمانہ حملہ
سولہ دسمبر کا دن پاکستان میں قہر کا باعث بن گیا تھا۔ اس دن شدت پسندوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کرتے ہوئے ایک سو چوّن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہی تھے۔ اسی برس دو نومبر سن دو ہزار چودہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین واقع مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ہی ایک خود کش حملہ ہوا تھا، جس میں پچپن افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
2015ء: شیعہ کمیونٹی ایک مرتبہ پھر نشانہ
تیس جنوری کو صوبہٴ سندھ میں شکارپور کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں باسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ تیرہ مئی کو شدت پسندوں نے کراچی میں شیعہ اقلیت کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا اور 45 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں یہ پہلا حملہ تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
2016ء: لاہور پارک بم دھماکا
ستائیس مارچ کو لاہور میں واقع بچوں کے ایک پارک پر حملہ کیا گیا، جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں بھی مسیحی اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
2016ء: کوئٹہ ہسپتال دھماکا
آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے علاوہ طالبان نے بھی قبول کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر حملہ
کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم انسٹھ افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ فوج کے مطابق اس مرتبہ نقاب پوش خود کش حملہ آوروں نے پولیس کی ایک تربیتی اکیڈمی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک زیر تربیت پولیس اہلکار کا کہنا ہے،’’جنگجو سیدھے ہماری بیرک میں پہنچے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ہم چیختے چلاتے بیرک میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔‘‘