1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سياست ايک نئے موڑ پر، اب کيا کيا ہو سکتا ہے؟

عاصم سلیم
28 جولائی 2017

پاکستانی سپريم کورٹ کے فيصلے پر ملا جُلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ جہاں ايک طرف اپوزيشن جماعتيں عدالت عظمیٰ کے فيصلے سے مطمئن نظر آتی ہيں وہيں مسلم ليگ نون اس بارے ميں تحفظات رکھتی ہے۔

Pakistan Islamabad Urteil Korruptiosnprozess
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

پاکستان کی تاريخ ميں آج تک کوئی بھی وزير اعظم پانچ سال کی مدت پوری نہ کر سکا ہے اور سپريم کورٹ کے اس فيصلے کی روشنی ميں يہ روايت اب بھی برقرار رہے گی۔ اس وقت سب کے ذہن ميں يہی سوال ہے کہ اب کيا ہو گا؟

تصویر: Reuters/C. Firouz

آئندہ وزير اعظم کی نامزدگی اور پھر تقرری

نواز شريف کو بطور وزير اعظم نا اہل قرار دے ديا گيا ہے۔ اب ان کی جماعت پاکستان مسلم ليگ نون آئندہ ملکی وزير اعظم کو نامزد کرے گی۔ اس نامزدگی پر ملکی پارليمان ميں رائے دہی ہو گی، جہاں پی ايم ايل اين اور اس کی اتحادی جماعتيں 342 سيٹوں پر مبنی پارليمان ميں 209 سيٹوں کی حامل ہيں۔ امکان ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے بھی وزير اعظم کے عہدے کے ليے کوئی اميدوار نامزد کيا جائے ليکن اس کی پارليمان سے توثيق کے امکانات کم ہيں۔ قوی امکانات ہيں کہ آئندہ وزير اعظم کی نامزدگی اور اس پر پارليمنٹ ميں ووٹنگ آئندہ چند دنوں ميں ہی ہو جائے گی۔

مسلم ليگ نون کی قانونی کارروائی

ايک اور ممکنہ پيش رفت يہ بھی ہو سکتی ہے کہ نواز شريف کی قانونی ماہرين کی ٹيم اس فيصلے پر نظر ثانی کی پيٹيشن دائر کرائے تاہم اس کے ليے ان کے پاس مواد انتہائی کم ہے۔ اس بارے ميں آئينی امور کے ماہر وکيل ياسر لطيف ہمدانی نے کہا ہے کہ آئين کا مطلب کيا ہے اس کا حتمی فيصلہ سپريم کورٹ کرتا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’اگر عدالت عظمی کسی معاملے ميں يہ موقف اختيار کرے کہ يہ معاملہ اس طرح نمٹايا جائے، تو اسی پر عملدرآمد ہوتا ہے۔‘‘

قبل از وقت انتخابات کے امکانات کتنے؟

اس تازہ پيش رفت کے بعد قبل از وقت انتخابات کے امکانات کم ہی ہيں کيونکہ ايسا اسی صورت ممکن ہوتا ہے کہ جب وزير اعظم کے مشورے پر اس کے احکامات ملکی صدر جاری کرے۔ ايسا کرنے کے ليے پہلے نئے وزير اعظم کی تقرری ضروری ہے۔ پاکستان ميں آئندہ عام انتخابات آئندہ برس ہونے ہيں۔

مارشل  لاء کے امکانات کتنے؟

پاکستان کی ستر سالہ تاريخ  کے تقريباً نصف حصے پر فوج اقتدار پر قابض رہی ہے۔ عام تاصر يہی ہے کہ ملکی خارجہ و دفاعی پاليسيوں پر فوج کا اثر و رسوخ ہے۔ امريکی دارالحکومت واشنگٹن ميں قائم ووڈرو ولسن سينٹر ميں جنوبی ايشيائی امور کے ماہر مائيکل کوگلمين کا البتہ کہنا ہے کہ اس وقت فوج معاملات اپنے ہاتھ ميں لينے ميں اس ليے دلچسپی نہيں رکھتی کيونکہ وہ کئی معاملات ميں پہلے ہی کافی حد تک ملوث ہے۔ علاوہ ازيں کوگلمين کہتے ہيں کہ پاکستانی عوام بھی ملک ميں مارشل لا کے حق ميں نہيں۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’پاکستانی فوج کو اپنی ساکھ اور عوامی سطح پر پائے جانے والے خيالات و تاثرات کا کافی خيال ہے۔ ماضی کے مقابلے ميں آج کل فوج اقتدار کی  بھوک بھی نہيں رکھتی۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں