پاکستانی سياست ايک نئے موڑ پر، اب کيا کيا ہو سکتا ہے؟
عاصم سلیم
28 جولائی 2017
پاکستانی سپريم کورٹ کے فيصلے پر ملا جُلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ جہاں ايک طرف اپوزيشن جماعتيں عدالت عظمیٰ کے فيصلے سے مطمئن نظر آتی ہيں وہيں مسلم ليگ نون اس بارے ميں تحفظات رکھتی ہے۔
اشتہار
پاکستان کی تاريخ ميں آج تک کوئی بھی وزير اعظم پانچ سال کی مدت پوری نہ کر سکا ہے اور سپريم کورٹ کے اس فيصلے کی روشنی ميں يہ روايت اب بھی برقرار رہے گی۔ اس وقت سب کے ذہن ميں يہی سوال ہے کہ اب کيا ہو گا؟
آئندہ وزير اعظم کی نامزدگی اور پھر تقرری
نواز شريف کو بطور وزير اعظم نا اہل قرار دے ديا گيا ہے۔ اب ان کی جماعت پاکستان مسلم ليگ نون آئندہ ملکی وزير اعظم کو نامزد کرے گی۔ اس نامزدگی پر ملکی پارليمان ميں رائے دہی ہو گی، جہاں پی ايم ايل اين اور اس کی اتحادی جماعتيں 342 سيٹوں پر مبنی پارليمان ميں 209 سيٹوں کی حامل ہيں۔ امکان ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے بھی وزير اعظم کے عہدے کے ليے کوئی اميدوار نامزد کيا جائے ليکن اس کی پارليمان سے توثيق کے امکانات کم ہيں۔ قوی امکانات ہيں کہ آئندہ وزير اعظم کی نامزدگی اور اس پر پارليمنٹ ميں ووٹنگ آئندہ چند دنوں ميں ہی ہو جائے گی۔
مسلم ليگ نون کی قانونی کارروائی
ايک اور ممکنہ پيش رفت يہ بھی ہو سکتی ہے کہ نواز شريف کی قانونی ماہرين کی ٹيم اس فيصلے پر نظر ثانی کی پيٹيشن دائر کرائے تاہم اس کے ليے ان کے پاس مواد انتہائی کم ہے۔ اس بارے ميں آئينی امور کے ماہر وکيل ياسر لطيف ہمدانی نے کہا ہے کہ آئين کا مطلب کيا ہے اس کا حتمی فيصلہ سپريم کورٹ کرتا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’اگر عدالت عظمی کسی معاملے ميں يہ موقف اختيار کرے کہ يہ معاملہ اس طرح نمٹايا جائے، تو اسی پر عملدرآمد ہوتا ہے۔‘‘
قبل از وقت انتخابات کے امکانات کتنے؟
اس تازہ پيش رفت کے بعد قبل از وقت انتخابات کے امکانات کم ہی ہيں کيونکہ ايسا اسی صورت ممکن ہوتا ہے کہ جب وزير اعظم کے مشورے پر اس کے احکامات ملکی صدر جاری کرے۔ ايسا کرنے کے ليے پہلے نئے وزير اعظم کی تقرری ضروری ہے۔ پاکستان ميں آئندہ عام انتخابات آئندہ برس ہونے ہيں۔
مارشل لاء کے امکانات کتنے؟
پاکستان کی ستر سالہ تاريخ کے تقريباً نصف حصے پر فوج اقتدار پر قابض رہی ہے۔ عام تاصر يہی ہے کہ ملکی خارجہ و دفاعی پاليسيوں پر فوج کا اثر و رسوخ ہے۔ امريکی دارالحکومت واشنگٹن ميں قائم ووڈرو ولسن سينٹر ميں جنوبی ايشيائی امور کے ماہر مائيکل کوگلمين کا البتہ کہنا ہے کہ اس وقت فوج معاملات اپنے ہاتھ ميں لينے ميں اس ليے دلچسپی نہيں رکھتی کيونکہ وہ کئی معاملات ميں پہلے ہی کافی حد تک ملوث ہے۔ علاوہ ازيں کوگلمين کہتے ہيں کہ پاکستانی عوام بھی ملک ميں مارشل لا کے حق ميں نہيں۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’پاکستانی فوج کو اپنی ساکھ اور عوامی سطح پر پائے جانے والے خيالات و تاثرات کا کافی خيال ہے۔ ماضی کے مقابلے ميں آج کل فوج اقتدار کی بھوک بھی نہيں رکھتی۔‘‘
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔