پاکستانی سیاست میں ایک بار پھر ایک بڑی سیاسی پارٹی کے حوالے سے ’مائنس ون فارمولا‘ کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ ملک میں کئی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہو رہی ہے کہ اس بار پھر کسی کو سیاست سے نکالنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
اشتہار
تاہم کئی سیاست دان، سول سوسائٹی کے کارکن اور مبصرین اس فارمولے کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں اور اسے ملک کے لیے ایک نقصان دہ اور منفی روایت قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ جمعے کے روز پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ 'امپورٹڈ‘ حکومت اور اس کے 'ہینڈلرز‘ انہیں سیاست سے آؤٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور 'مائنس ون فارمولا‘ پر کام کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کے اس بیان کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں ان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے پی ان کی پارٹی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مظاہرے بھی کیے تھے۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ایسا مبینہ طور پر اس لیے کیا جا رہا ہے کہ 'حکومت اور اس کے ہینڈلرز‘ ان کی مقبولیت سے خائف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کو سیاسی میدان میں شکست نہیں دے سکتے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان پر کچھ دنوں سے بحث چل رہی ہے اور کچھ اخبارات نے اس حوالے سے اداریے بھی لکھے ہیں۔
’مائنس ون کی سوچ موجود ہے‘
عمران خان کے خلاف ملک کی عدالتوں میں مختلف مقدمات چل رہے ہیں، جن کی وجہ سے کچھ حلقوں میں یہ تاثر بھی ہے کہ کسی ایک مقدمے میں ان کو سزا کے طور پر نا اہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی سیاست سے باہر کرنے کا طریقہ صرف سیاسی ہی ہونا چاہیے اور کسی کو عدالت کے ذریعے نااہل کروا دینا یا 'ٹیکنیکل گراؤنڈ پر ناک آؤٹ‘ کرنا مناسب نہیں۔
وجیہہ الدین احمد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''الیکشن کمیشن، اسلام آباد ہائی کورٹ، توشہ خانہ یا کسی اور مسئلے پر عمران خان کو مائنس کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یوں پی ٹی آئی بحیثیت ایک سیاسی جماعت ختم ہو جائے گی کیونکہ عمران خان کا دوسرا نام پی ٹی آئی ہے اور وہاں کوئی متبادل قیادت موجود نہیں۔ تاہم میں نا اہل قرار دینے کے اس عمل کو منفی سمجھتا ہوں اور اس روایت کو ختم ہونا چاہیے۔‘‘
جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ ممکنہ طور پر تحمل کا مظاہرہ کر سکتی ہے کیونکہ عمران خان کی توجیح کوئی اتنی غیر منطقی بھی نہیں ہے۔
’تاریخی تسلسل کے اشارے‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اگر تاریخی تسلسل کو دیکھیں تو لگتا یہ ہے کہ اس 'مائنس ون فارمولے‘ پر عدالتوں کے ذریعے عمل کرایا جائے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کو عدالت کے ذریعے مائنس کیا گیا۔ پھر یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو بھی عدالتوں ہی کے ذریعے مائنس کیا گیا۔ تو اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ عمران خان کو بھی عدالت کے ذریعے ہی مائنس کیا جائے گا۔‘‘
اشتہار
’مقابلہ سیاسی میدان میں ہونا چاہیے‘
پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کا مقابلہ سیاسی میدان میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حالانکہ عمران خان نے سیاست اور جمہوریت کو بہت نقصان پہنچایا ہے، لیکن پھر بھی کسی ادارے کو یہ استحقاق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی سیاست دان کو سیاست سے باہر کر دے یا مائنس ون کا کوئی فارمولا لے کر آئے۔‘‘
’قومی جرگہ بلایا جائے‘
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سیاست داں حاجی لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کے خلاف قومی جرگہ بلایا جانا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس قومی جرگے میں اس بات کا عہد کیا جانا چاہیے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا احترام کیا جائے گا۔ جمہوریت کو حقیقی معنوں میں طرز سیاست کے طور پر اپنایا جائے گا۔ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کو ختم کیا جائے گا۔ قوموں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا جائے گا، ان کے حقوق کا احترام کیا جائے گا اور اقتدار کا واحد راستہ جمہوریت ہی کو قرار دیا جائے گا۔‘‘
لشکری رئیسانی کے مطابق اگر ان اصولوں کو مان لیا جائے تو پھر سیاست دان کے خلاف کوئی بھی 'مائنس ون فارمولہ‘ لے کر نہیں آ سکے گا۔
مائنس ون کی حالیہ تاریخ
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ مائنس ون کی موجودہ لہر کا آغاز دو ہزار تیرہ میں ہوا، جب ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کو سیاست سے بے دخل کرنے کی بات کی گئی۔ کئی مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم کے بانی اپنی 'بھیانک سیاسی غلطیوں‘ کے باعث خود ہی سیاست سے مائنس ہو گئے اور انہیں ان کی پارٹی نے ہی نکال دیا۔
اسی عمل کے تحت نواز شریف کو عدالت کے ذریعے مائنس کرایا گیا اور یہاں تک کہ بعد میں ان کے لیے پارٹی کی قیادت کرنا بھی مشکل ہو گیا۔ اس عمل میں سابق صدر آصف علی زرداری نے کسی نہ طرح اپنے آپ کو بچا لیا لیکن ان کی پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
سیاست دانوں کو خوشیاں نہیں منانا چاہییں
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کی خواہش ہے کہ عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا جائے تاکہ اس پارٹی کے لیے سیاسی میدان خالی ہو جائے۔ تاہم کچھ مبصرین ایسی خواہشات کو سیاسی طور پر انتہائی خطرناک بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے سیاست اور سیاست دانوں دونوں کو بہت نقصان ہو گا۔ حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بھی ''خواہش سیاسی ناپختگی کو ظاہر کرتی ہے، جو جہموریت اور سیاست دونوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔‘‘
لشکری رئیسانی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاست دانوں کو سیاست سے غیر جمہوری انداز میں نکالنا کسی بھی طرح کسی جمہوری معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ لشکری رئیسانی کے مطابق عمران خان کو بخوبی علم ہے کہ وہ کس طرح اقتدار میں آئے اور ان کو اب سیاست سے آؤٹ کون کرنا چاہتا ہے۔
رئیسانی نے کہا، ''حالانکہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں کچھ ایسی بدترین مثالیں قائم کیں، جن سے ان کی سیاست، ملکی سیاست اور سیاست دانوں سبھی کو بہت نقصان پہنچا۔ لیکن پھر بھی میں سیاست دانوں کو مائنس ون کے فارمولے کے ذریعے ہٹانے کی حمایت نہیں کر سکتا۔‘‘
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔