اسی سال ہونے والے پاکستانی پارلیمانی انتخابات سے کچھ ہی عرصہ پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے عدالتی فیصلے نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
اشتہار
پہلے وزارت عظمیٰ اور پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی صدارت سے الگ کر دیے جانے کے بعد نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا جمعہ تیرہ اپریل کا عدالتی فیصلہ حالیہ دنوں میں نواز شریف کے خلاف سنایا جانے والا تیسرا بڑا عدالتی فیصلہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس صورتحال کے گہرے اثرات ملک کی آئندہ سیاست کے ساتھ ساتھ 2018 کے انتخابی نتائج پر بھی مرتب ہوں گے۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق نواز شریف کی ساری کشتیاں جل چکی ہیں اور اب ان کی احتجاجی تحریک میں مزید تلخی آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اب ان کے بھائی شہباز شریف سمیت مسلم لیگ ن کے مفاہمت پسند حلقوں کے لیے بھی خود کو نواز شریف کے بیانیے سے الگ رکھنا آسان نہیں ہو گا۔ ان ماہرین کے مطابق اگر نواز شریف نے آئندہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، تو اس ممکنہ فیصلے سے بھی ملک میں پہلے سے جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے ایک سینئر تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں اور پارٹی کے اندر موجود لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ پارٹی قیادت کی نااہلی کے بعد ان کا مستقبل کیا ہو گا اور یہ بھی کہ آیا ایسے کارکن اب اس پارٹی میں رہیں یا نہ رہیں۔ ان کے بقول اب ن لیگ کے بعض ارکان کی طرف سے پارٹی کو خیرباد کہہ دینے کے واقعات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
جوتا کس نے پھینکا؟
حالیہ کچھ عرصے میں کئی ملکوں کے سربراہان اور سیاستدانوں پر جوتا پھینکے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ شہرت سابق امریکی صدر بُش پر پھینکے گئے جوتے کو ملی اور تازہ شکار سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بنے۔
تصویر: AP
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا اُن کے عراقی کے دورے کے دوران پھینکا گیا۔ یہ جوتا ایک صحافی منتظر الزیدی نے چودہ دسمبر سن 2008 کو پھینکا تھا۔
تصویر: AP
سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ
دو فروری سن 2009 کو لندن میں سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ پر ایک جرمن شہری مارٹن ژانکے نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ جوتا جیا باؤ سے کچھ فاصلے پر جا کر گرا تھا۔
تصویر: Getty Images
سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد
ایرانی صوبے مغربی آذربائیجدان کے بڑے شہر ارومیہ میں قدامت پسند سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ یہ واقعہ چھ مارچ سن 2009 کو رونما ہوا تھا۔ احمدی نژاد کو سن 2006 میں تہران کی مشہور یونیورسٹی کے دورے پر بھی جوتے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: fardanews
سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ
چھبیس اپریل سن 2009 کو احمد آباد شہر میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کے رہنما اور اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پر ایک نوجوان نے جوتا پھینکا، جو اُن سے چند قدم دور گرا۔
تصویر: Reuters/B. Mathur
سوڈانی صدر عمر البشیر
جنوری سن 2010 میں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ’فرینڈ شپ ہال‘ میں صدر عمر البشیر پر جوتا پھینکا گیا۔ سوڈانی صدر کا دفتر اس واقعے سے اب تک انکاری ہے، لیکن عینی شاہدوں کے مطابق یہ واقعہ درست ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Hamid
ترک صدر رجب طیب ایردوآن
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر فروری سن 2010 میں ایک کرد نوجوان نے جوتا پھینک کر کردستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ کرد شامی شہریت کا حامل تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/O. Akkanat
سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری
پاکستان کے سابق صدرآصف علی زرداری کے برطانوی شہر برمنگھم کے دورے کے موقع پر ایک پچاس سالہ شخص سردار شمیم خان نے اپنے دونوں جوتے پھینکے تھے۔ یہ واقعہ سات اگست سن 2010 کا ہے۔
تصویر: Getty Images
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر
چار ستمبر سن 2010 کو سابق برطانوی وزیر ٹونی بلیئر کو ڈبلن میں جوتوں اور انڈوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈبلن میں وہ اپنی کتاب ’اے جرنی‘ کی تقریب رونمائی میں شریک تھے۔
تصویر: Imago/i Images/E. Franks
سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ
چار نومبر سن 2010 کو کیمبرج یونیورسٹی میں تقریر کے دوران سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ پر جوتا پھینکا گیا۔ جوتا پھینکنے والا آسٹریلیا کا ایک طالب علم تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف
لندن میں ایک ہجوم سے خطاب کے دوران سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ واقعہ چھ فروری سن 2011 کو پیش آیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق تائیوانی صدر ما یِنگ جُو
تائیوان کے سابق صدر ما یِنگ جُو پر اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہجوم میں سے کسی شخص نے جوتا آٹھ ستمبر سن 2013 کو پھینکا۔ تاہم وہ جوتے کا نشانہ بننے سے بال بال بچ گئے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو گیارہ مارچ سن 2018 کو ایک مدرسے میں تقریر سے قبل جوتا مارا گیا۔ اس طرح وہ جوتے سے حملے کا نشانہ بننے والی تیسری اہم پاکستانی سیاسی شخصیت بن گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
12 تصاویر1 | 12
ڈاکٹر عسکری تاہم اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستانی سیاست میں نواز شریف کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق نواز شریف اسمبلی کی رکنیت اور پارٹی صدارت اپنے پاس نہ رکھتے ہوئے بھی پس منظر میں رہ کر اہم سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نظرثانی کی اپیل کا امکان تو نہیں کیونکہ نواز شریف اس مقدمے میں فریق نہیں تھے لیکن نظرثانی کی اپیل کی صورت میں بھی نواز شریف کو سپریم کورٹ سے اس مقدمے میں کوئی ریلیف ملنے کا امکان بہت کم ہے۔ ان کے مطابق عوامی ووٹ حاصل کرنے والوں کے معاملات کو شفاف ہی ہونا چاہیے۔ جن لوگوں کے معاملات شفاف نہیں ہوں گے، ان پر آئین کے آرٹیکل 6 اے کی تلوار آنے والے دنوں میں بھی لٹکتی رہے گی۔
پاکستان کے ایک اور سرکردہ سیاسی تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سخت ہے، اس پر کافی تبصرے ہوں گے اور اس سے آنے والے دنوں میں کئی متنازعہ بحثیں بھی شروع ہوں گی۔ انہوں نے کہا، ’’لگتا ہے کہ پاکستانی قانون دانوں کے حلقے سے اس فیصلے کو تائید نہیں مل سکے گی۔‘‘ ان کے مطابق خود پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسی سوچ کا اظہار کیا ہے کہ یہ ’سیاست دانوں کو سیاست سے خارج کرنے‘ کا فیصلہ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس فیصلے کے حوالے سے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ وہ سیاست دانوں کی قسمت کا فیصلہ عوام کی طرف سے کیے جانے پر یقین رکھتے ہیں۔
نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کے شہر لاہور میں کیا ہو رہا ہے؟
آج پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد اُن کے شہر لاہور میں ملی جلی صورتِ حال رہی۔ کہیں مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے احتجاج کیا تو کہیں پی ٹی آئی کے ورکرز نے جشن منایا۔
تصویر: T. Shahzad
شیر کا انتخابی نشان
لاہور کے شملہ پہاڑی چوک میں دو رکشا ڈرائیور نون لیگ کے انتخابی نشان شیر کے پاس بیٹھے نعرے لگا رہے ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
پریس کلب کے باہر احتجاج
مسلم لیگ نون کی ایم پی اے فرزانہ بٹ دیگر کارکنوں کے ہمراہ لاہور پریس کلب کے باہر زمین پر بیٹھ کر احتجاج کر رہی ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
برطرفی کا جشن
لاہور کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں موجود اس علاقے کے لالک چوک میں پی ٹی آئی آج رات نواز شریف کی برطرفی کا جشن منا رہی ہے۔
تصویر: T. Shahzad
’قاف‘ کے کارکن بھی خوش
لاہور کے مسلم لیگ ہاؤس میں مسلم لیگ قاف کے کارکنوں کی طرف سے مٹھائی بانٹی گئی۔
تصویر: T. Shahzad
دوکانیں معمول سے پہلے بند
احتجاجی سرگرمیوں کے لیے معروف لاہور کا فیصل چوک بھی ذیادہ تر سنسان رہا۔ نون لیگی کارکنوں کی اکا دکا ٹولیاں ریگل چوک تک آتی اور نعرے لگا کر واپس جاتی رہیں جبکہ کئی مارکیٹوں میں دوکانیں معمول سے پہلے ہی بند ہو گئیں۔
تصویر: T. Shahzad
5 تصاویر1 | 5
امتیاز عالم کے بقول نواز شریف کو ان سے ہونے والی ’ناانصافی‘ کا بیانیہ مزید زور شور سے عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک مقبول عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما کو باہر رکھ کر انتخابی عمل کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ سے نکال دیا گیا ہے۔ امتیاز عالم نے کہا کہ یہ معاملہ آنے والے الیکشن میں بھی نمایاں ہو کر سامنے آئے گا۔ ان کی رائے میں آرٹیکل 6 اے سمیت ضیاالحق دور کی آئینی ترامیم کو ختم کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کے ایک سینئر صحافی نذیر ناجی کا آرٹیکل 61 ایف کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ وہ ہر اس حق کے خلاف ہیں جو عوام کے حق کو کسی ایک فرد کے پاس لے جائے۔ ان کے بقول اس طرح کے فیصلوں کا اختیار عوام کے پاس ہونا چاہیے اور اسمبلی کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
نذیر ناجی کے مطابق اس فیصلے کے پنجاب میں برے اثرات سامنے آنے کا کوئی زیادہ امکان نہیں ہے کیونکہ پنجاب کی بیوروکریسی مسلم لیگ ن کے ہاتھوں میں ہے اور آئندہ عام الیکشن میں اس کے ’رول‘ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا مستقبل کی پاکستانی سیاست کا منظر نامہ اب واضح نہیں ہوتا جا رہا، نذیر ناجی کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ آنے والے دنوں کی سیاست کا منظر نامہ تو اب زیادہ دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ اندازہ لگانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ اصل فیصلہ ساز کیا فیصلے کرنے جا رہے ہیں۔‘‘ ان کے بقول مسلم لیگ ن اپنے حق میں ہمدردی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش تو کرے گی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’پنجاب اب ایک طرف ہے اور باقی تین صوبے دوسری طرف‘۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔