پاکستانی سیاست کے بدلتے رنگ، نوجوان ووٹروں کی تعداد پچاس فی صد کے قریب
6 نومبر 2012ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے آٹھ کروڑ سے زائد رائے دہندگان میں تقریباً چار کروڑ کے لگ بھگ ووٹرز ایسے ہیں جن کی عمریں اٹھارہ سے پینتیس سال کے درمیان ہیں۔ ایک کروڑ باسٹھ لاکھ ووٹرز کی عمریں اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان اور دو کروڑ اڑتیس لاکھ چھبیس سے پینتیس سال کی درمیانی عمر کے ہیں۔ پاکستان کی بڑی جماعتیں ان نوجوان ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے آج کل خصوصی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کہیں نوجوانوں کے میلے منعقد ہو رہے ہیں اور کوئی نوجوانوں میں لیپ ٹاپ بانٹ رہا ہے۔ کوئی یوتھ پالیسی کا اعلان کر رہا ہے اور کوئی اپنے منشور میں نوجوانوں کی بہتری کے لیے بڑے بڑے منصوبے لا رہا ہے، انہی نوجوان ووٹروں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے میڈیا سیلز میں سوشل میڈیا کے شعبے بھی کھول دیے ہیں۔
پاکستان کی ایک سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے حال ہی میں نوجوانوں کو آنے والے انتخابات میں کم از کم پچیس فی صد نشستیں دینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ قابل اور اہل نوجوان جو انتخابی اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہوں گے، پارٹی ان کو مالی معاونت بھی فراہم کرے گی۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کی پارٹی کے اس اقدام کا مقصد جمود کے حامی روایتی سیاست دانوں کے بجائے تبدیلی کے خواہشمند اہل اور قابل نوجوانوں کو سامنے لانا ہے۔ ان کے بقول نوجوانوں کو حقیقی طور پر بااختیار بنانے کا درست طریقہ یہی ہے کہ ان سے تالیاں بجوانے اور جلسوں میں کرسیاں لگوانے کی بجائے انہیں اسمبلیوں میں بھیجا جائے۔ اسد عمر نے پاکستان کے بارے میں کیے جانے والے ایک حالیہ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اکانوے فی صد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ ان کے بقول یہی عوامی رائے تبدیلی کا پیش خیمہ بنے گی اور تبدیلی کے اس عمل میں روایتی سیاست دان نہیں بلکہ نوجوان بنیادی کردار ادا کریں گے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹوڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی (پلڈاٹ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد بلال محبوب نے بتایا کہ انیس سو ستر کے بعد پہلی مرتبہ نوجوان پرجوش طریقے سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے بقول قابل نوجوانوں کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی بڑی وجہ ان کے پاس وسائل کا نہ ہونا تھا اور سیاسی جماعتیں بھی امیروں کو ہی ٹکٹ دیتی رہی ہیں۔ ان کے بقول نوجوانوں کو الیکشن لڑوانا اور انھیں انتخابی مہم کے لیے وسائل فراہم کرنا ایک خوش آئند بات ہے۔ اس کے ملکی سیاست پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نوجوان ووٹرز اگر کسی پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے تو وہ انتخابی نتائج میں سپرائز بھی دے سکتے ہیں۔
ایک نوجوان عاطف چوہدری نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو نمائشی اقدامات کی بجائے نوجوانوں کی بہبود کے لیے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پڑھے لکھے نوجوان ذات، برادری یا پیسے کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیں گے بلکہ ہر کوئی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچے گا کہ ووٹ مانگنے والوں نے اس ملک کے لیے کیا خدمات سرانجام دی ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ملک کے آئندہ الیکشن میں یہ نوجوان ووٹرز روایتی سیاسی پارٹیوں کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں اور ان نوجوان ووٹروں کی انتخابات میں سرگرم شمولیت آنے والے انتخابات میں حیرت انگیز نتائج کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عدنان اسحاق