پاکستانی اپوزیشن اراکین نے الزام لگایا ہے کہ سینیٹ میں پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ آج جمعے کے روز سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔
اشتہار
سینیٹ میں پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے نصب کیے جانے کے اپوزیشن کے الزامات کے بعد پولنگ چند گھنٹوں کے لیے ملتوی کر دی گئی اور پریذائیڈنگ افسر نے نیا پولنگ بوتھ بنانے کا حکم دے دیا۔
پاکستانی سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے رائے دہی آج ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب اپوزیشن نے پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے نصب کیے جانے کے الزامات عائد کیے اور اس وجہ سے شدید احتجاج کیا۔ اپوزیشن ارکان پارلیمان نے پولنگ بوتھ بھی اکھاڑ دیا۔
سینیٹر مصدق ملک اور مصطفیٰ نواز نے اس کیمرے کی تصویر سوشل میڈیا پر جاری کر دی۔ انہو ں نے خفیہ کیمروں کے علاوہ مائیکرو فون نصب کیے جانے کے الزامات بھی لگائے۔
وزیر اطلاعات کی طرف سے تردید
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ انہوں نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ یہ کیمرے خود ان کی جانب سے لگوائے گئے تھے۔
شبلی فراز نے اس معاملے کی بھرپور تحقیقات کرانے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن کی اپنی سازش تھی۔
خیال رہے کہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتہائی اہم الیکشن کے لیے ووٹنگ خفیہ رائے رہی کے ذریعے ہوتی ہے، جس کے لیے ایوان میں پولنگ بوتھ بنایا گیا تھا۔
پاکستان میں دیہات کی سادہ مگر پرلطف زندگی
گلوبلائزیشن کے اثرات پنجاب کے دیہات پر بھی مرتب ہو رہے ہیں لیکن آج بھی دیہات کی زندگی میں وہ رعنائیاں ملتی ہیں، جو یہاں کی صدیوں پرانی ثقافت کی امین ہیں۔ دیہات کی سادہ مگر پرلطف زندگی کی چند جھلکیاں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
پنجاب میں لوک داستانیں ہوں یا محبت بھرے گیت۔ ان میں کنوؤں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ پہلے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے بیلوں کی مدد سے راہٹ چلتے تھے اب ان کی جگہ ٹیوب ویل لے چکے ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
’بھٹھی والیے ، چنبے دیئے ڈالیے‘
بھٹی والی کا ذکر پنجاب کے لوک گیتیوں میں بھی کثرت سے ملتا ہے۔ مشہور پنجابی شاعر شیو کمار بٹالوی نے بھی اسی بھٹی والی سے کہا تھا، ’بھٹھی والیے ، چنبے دیئے ڈالیے، تینوں دیاں ہنجواں دا بھاڑا، نی پِیڑاں دا پراگا بُھن دے۔‘‘ جدیدیت کے ساتھ ساتھ پنجاب میں اب بھٹی والی خواتین بھی کم ہوتی جا رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
جو شخص بھی کسی دیہات میں زندگی گزار چکا ہے، وہ اس بچے کی خوشی کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ خوشیاں قیمتی کھلونوں کے بغیر بھی مل سکتی ہیں۔ اکثر دیہات میں ایسے بچے بھی نظر آتے ہیں، جو ٹائروں کو ایک چھوٹی چھڑی کی مدد سے گھوماتے ہوئے بھاگتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
دیہات کے حجام پہلے گھر گھر جا کر حجامت کیا کرتے تھے اور زمیندار لوگ انہیں فصل کی کٹائی کے بعد گندم یا چاول بطور معاوضہ دیا کرتے تھے۔ کئی دیہات میں اب بھی یہی رواج ہے۔ پنجاب کی ثقافت میں کبھی نائی کا کردار انتہائی اہم ہوتا تھا۔ شادی بیاہ کے لیے پیغامات یا دعوت نامے گاؤں کا حجام یا نائی ہی دینے جاتا تھا۔
تصویر: DW/I. Ahmad
جہاں شہروں کے بچے دودھ کے صرف نام سے واقف ہیں، وہاں دیہات کے بچے بھینسوں کی دیکھ بھال کرتے نظر آتے ہیں۔ زیر نظر تصویر میں بچے مٹکے نما اس برتن (دہونے) میں دودھ ڈال کر اپنے ڈیرے سے گھر لے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
حالیہ چند برسوں میں گدھے مہنگے ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جانوروں کے لیے چارے کی منتقلی کے لیے ماضی کی طرف دوبارہ بھینسوں کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ بھینیسں گدے کی نسبت سست رفتار ہیں لیکن دیہات کے راستے بھی طویل نہیں ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
پنجاب کے دیہات میں بھیڑ بکریاں آج بھی بنیادی زندگی کا حصہ ہیں۔ کئی چرواہے سارا سال بھیڑ بکریاں پالتے رہتے ہیں اور عید الاضحیٰ کے موقع پر شہروں میں جا کر فروخت کر دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
پنجاب میں بہار کا موسم خوبصورت ترین موسم ہے۔ اس موسم میں شادیوں کی تقریبات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ شادی کی تقریبات میں پھولوں کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے یہی دیہات پیش پیش ہیں۔ نوشہرہ ورکاں کے مضافاتی دیہات میں پھولوں کا کاروبار عروج پکڑتا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Ahmad
اب تو شہروں میں بھی تندور کی روایت موجود ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ پنجاب کے دیہات سے ہی چلی ہے۔ پنجاب کے زیادہ تر دیہات میں ایک تندور والی ہوتی تھی، جہاں سے روٹیاں لگوائی جا سکتی تھیں۔ پہلے معاوضے کے طور پر تندور والی کو آٹا دیا جاتا تھا اب لوگ پیسے بھی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
آج کل پنجاب میں گنے کی فصل کاٹی جا رہی ہے۔ پاکستان میں گنا چینی بنانے کا ایک بنیادی ذریعہ ہے۔ دیہات میں گنے کے جوس (رَو) سے کھیر بھی تیار کی جاتی ہے اور چینی کا متبادل گُڑ بھی۔
تصویر: DW/I. Ahmad
گڑ بنانے کے لیے گنے کے رس کو ایک بڑے سے برتن میں ڈال کر گرم کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے کئی دیہاتوں میں اب بھی لوگ چینی کی بجائے گڑ یا شکر کے استعمال کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
گڑ کا رنگ ہلکا براؤن بنانے کے لیے آج کل اس کی تیاری میں کیمیکلز کا استعمال بھی ہونا شروع ہو چکا ہے۔ مارکیٹ میں بیچے جانے والے گڑ میں تو کیمیکلز کا استعمال ہوتا ہے لیکن اکثر کسان اپنے گھر کے لیے استعمال ہونے والے گڑ میں یہ کیمیکلز نہیں ڈالتے۔ جس گڑ میں کیمکلز کا استعمال نہ ہو، اس کا رنگ گہرا براؤن ہو جاتا ہے۔
تصویر: DW/I. Ahmad
دیہات میں چھتیں جس قدر ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں، اسی طرح وہاں کے لوگوں کے دل بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ کچی چھتوں اور کچے صحنوں کی لپائی مٹی سے کی جاتی ہے۔ شہتیروں والی کچی چھتوں میں چڑیوں کو گھونسلے بنانے میں بھی آسانی ہوتی تھی۔ شہروں کی طرح گاؤں میں چھتیں پختہ ہوئیں تو تو چڑیاں بھی روٹھ گئی ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
ویسے تو پنجاب کے متعدد کھیل وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ایسا کم ہوتا ہے کہ دیہات میں بچے بارہ ٹین، کوکلا چھپاکی، اسٹاپو، گُلی ڈنڈا یا پھر بندر کِلا کھیلتے نظر آئیں۔ تاہم کبھی کبھار بچے کینچے کھیلتے ہوئے نظر ضرور آتے ہیں۔ کبڈی کا کھیل بھی دوبارہ زندہ ہوتا نظر آتا ہے۔
تصویر: DW/I. Ahmad
ہر جگہ سوئی گیس نہیں ہے۔ دیہاتوں میں اب بھی آگ جلانے کے لیے گائے بھینسوں کے گوبر سے اوپلے بنائے جاتے ہیں، جنہیں سوکھ جانے کے بعد آگ جلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/I. Ahmad
پہلے پنجاب کے زیادہ تر گھروں میں اس طرح کی شیلف، جو پنجابی میں پڑچھتی کہلاتی ہے، ایک لازمی حصہ ہوتی تھی۔ اب ان پر پیتل کی بجائے کم قیمت دھاتوں کے برتن رکھے نظر آتے ہیں۔ کمروں کے اندر ایسی پڑچھتیاں بنانے کا رجحان تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Ahmad
پہلے چولہے کے ساتھ ساتھ تندور بھی ہر گھر کا لازمی حصہ ہوتا تھا۔ یہ رواج بھی عام تھا کہ کسی ایک گھر تندور جلایا جاتا تھا اور باقی خواتین وہاں آ کر اپنی روٹیاں لگاتی تھیں تاکہ ایندھن اور محنت کی بچت ہو۔ اب دیہات میں قدرتی گیس کی فراہمی سے روایتی تندور بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
تانگہ پنجاب کی قدیم سواری ہے۔ کبھی مشہور گلوکار مسعود رانا کا گانا ’ٹانگے والا خیر منگدا، ٹانگہ لاہور ہووے تے پاویں جهنگ دا‘ پنجاب کے ہر دیہات میں مشہور تھا۔ اب دیہات میں بھی تانگے کی جگہ، بسیں، ویگنیں اور چنگ چی لے رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
تیس برس پہلے تک پنجاب میں جگہ جگہ چھوٹے تالاب اور صاف بہتے پانی کے ایسے نالے ہوتے تھے، جہاں سے مقامی لوگ مچھلیاں پکڑتے تھے۔ اب ایسے تالاب اور نالے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فصلوں میں استعمال ہونے والی زہریلی ادویات کی وجہ سے مچھلیاں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
شہروں کے برعکس دیہات میں سورج ڈھلتے ہی کاروبار زندگی بند ہو جاتا ہے۔ چرواہوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے ہی اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائیں۔
تصویر: DW/I. Ahmad
20 تصاویر1 | 20
پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا کے نئے چیئرمین کے انتخاب کے بعد پریذائیڈنگ افسر نئے چیئرمین سے حلف لیں گے، جس کے بعد چیئرمین خود ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کروائیں گے اور پھر نو منتخب ڈپٹی چیئرمین سے حلف بھی لیں گے۔
سینیٹ کے چیئرمین کے طور پر انتخاب کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے صادق سنجرانی کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ اپوزیشن اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو اس عہدے پر دیکھنا چاہتی ہے۔
سینیٹ کی موجود صورتحال کے تناظر میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے پاس 51 اراکین کی اکثریت ہے اور حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 47 ہے۔ اسی لیے اس الیکشن میں ہر ووٹ انتہائی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
ج ا / م م (خبر رساں ادارے)
پاکستان کے بارے ميں دس منفرد حقائق
دنيا کے ہر ملک و قوم کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی ميدان ميں شہرت کے افق تک پہنچا جائے۔ پاکستان بھی چند منفرد اور دلچسپ اعزازات کا حامل ملک ہے۔ مزید تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
بلند ترین مقام پر اے ٹی ايم
دنيا بھر ميں سب سے زيادہ اونچائی پر اے ٹی ايم مشين پاکستان ميں ہے۔ گلگت بلتستان ميں خنجراب پاس پر سطح سمندر سے 15,300 فٹ يا 4,693 ميٹر کی بلندی پر واقع نيشنل بينک آف پاکستان کے اے ٹی ايم کو دنيا کا اونچا اے ٹی ايم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
سب سے کم عمر ميں نوبل انعام
سب سے کم عمر ميں نوبل امن انعام ملنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کو حاصل ہوا۔ ملالہ يوسف زئی کو جب نوبل انعام سے نوازا گيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ ملالہ سے پہلے ڈاکٹر عبداسلام کو سن 1979 ميں نوبل انعام کا حقدار قرار ديا گيا تھا۔
تصویر: Reuters/NTB Scanpix/C. Poppe
سب سے بلند شاہراہ
شاہراہ قراقرم دنيا کی بلند ترين شاہراہ ہے۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔
تصویر: imago
فٹ بالوں کا گڑھ - سیالکوٹ
سيالکوٹ اور اس کے گرد و نواح ميں سالانہ بنيادوں پر چاليس سے ساٹھ ملين فٹ باليں تيار کی جاتی ہيں۔ يہ فٹ بالوں کی عالمی پيداوار کا ساٹھ سے ستر فيصد ہے۔ خطے ميں تقريباً دو سو فيکٹرياں فٹ باليں تيار کرتی ہيں اور يہ دنيا بھر ميں سب سے زيادہ فٹ بال تيار کرنے والا شہر ہے۔
تصویر: Reuters
آب پاشی کا طويل ترين نظام
کنال سسٹم پر مبنی دنيا کا طويل ترين آب پاشی کا نظام پاکستان ميں ہے۔ يہ نظام مجموعی طور پر چودہ اعشاريہ چار ملين ہيکڑ زمين پر پھيلا ہوا ہے۔
تصویر: Imago/Zuma/PPI
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک پاکستان ميں ہے۔ يہ اعزاز غير سرکاری تنظيم ايدھی فاؤنڈيشن کو حاصل ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Hassan
سب سے کم عمر کرکٹر
سب سے کم عمر ميں انٹرنيشنل کرکٹ کھيلنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کرکٹر کو حاصل ہے۔ حسن رضا کی عمر صرف چودہ برس اور 227 دن تھی جب انہوں سن 1996 ميں فيصل آباد ميں زمبابوے کے خلاف پہلا بين الاقوامی ميچ کھيلا۔
تصویر: Getty Images
کرکٹ ميں سب سے تيز رفتار گيند
کرکٹ کی تاريخ ميں سب سے تيز رفتار گيند کرانے کا اعزاز شعيب اختر کو حاصل ہے۔ اختر نے سن 2003 ميں انگلينڈ کے خلاف ايک ميچ کے دوران 161.3 کلوميٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ايک گيند کرائی۔
تصویر: AP
سب سے کم عمر سول جج
محمد الياس نے سن 1952 ميں جب سول جج بننے کے ليے امتحان پاس کيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف بيس برس تھی۔ انہيں اس شرط پر امتحان دينے کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ امتحان پاس کرنے کی صورت ميں بھی 23 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ملازمت نہيں کريں گے۔ تاہم بعد ميں نرمی کر کے انہيں آٹھ ماہ بعد بطور سول جج کام کی اجازت دے دی گئی۔ محمد الياس سب سے کم عمر سول جج تھے۔