چند پاکستانی تاجر چین میں قائم پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے چینی حکومت پر اپنی بیویوں اور بچوں کو ان کے آبائی شہروں سے باہر سفر کرنے کی اجازت دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اشتہار
پاکستانی شہر لاہور کے رہائشی چالیس سالہ مرزا عمران بیگ چینی صوبے سنکیانگ کے شہر ارومچی میں کاروبار کی وجہ سے کافی سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے چین میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ان کی اہلیہ کو گزشتہ برس دو ماہ کے لیے حراست میں لے لیا گیا تھا اور رہائی کے بعد سے وہ اپنا آبائی شہر چھوڑ نہیں سکتی۔ بیگ کی 33 سالہ اہلیہ اور ان کا چار سالہ بیٹا دونوں چینی شہری ہیں۔ یہ دونوں چینی انتظامیہ کی جانب سے اپنا پاسپورٹ حاصل نہیں کر پا رہے۔ بیگ کا کہنا ہے،’’ پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ آپ انتظار کریں۔‘‘
بیجنگ حکومت کا موقف ہے کہ اسے سنکیانگ میں اسلامی شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سے شدید خطرات لاحق ہیں اور وہ مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کے متعصبانہ رویے کی تردید کرتی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق انہیں ایسے کسی خاندان کے بارے میں علم ہی نہیں ہے جن پر سفری پابندیاں عائد ہوں۔ بیجنگ پر انسانی حقوق کی تنظیموں، کچھ حکومتوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے اجتماعی حراستی مراکز اور خاص طور پر مسلم اقلیت ایغور کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے پر تنقید کی جاتی ہے۔
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
ایک عام تاثر یہی ہے کہ مسلم ممالک نے سنکیانگ میں مسلمانوں کی صورتحال پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ تاہم کچھ حلقے توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان میں نو منتخب حکومت شاید اس صورتحال پر چینی انتظامیہ سے بات کرے گی۔
لاہور کے ایک اور تاجر میاں شاہد الیاس ایسے کیسسز کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت ان خاندانوں کی مدد کرے گی۔ الیاس نے ٹیلی فون سےگفتگو کرتے ہوئے روئٹرز کو بتایا کہ ان کی اہلیہ ایغور مسلمان ہے، وہ چینی شہر ی ہے اور گزشتہ سال اپریل سے حراست میں ہے۔ الیاس نے بتایا،’’ بہت سے لوگوں نے میری طرح ایغور نسل کی خواتین سے شادی کی ہوئی ہے، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن 2017ء سے چینی انتظامیہ نے سنکیانگ میں بہت زیادہ سختی کر دی ہے۔‘‘
الیاس کے مطابق وہ ایسے 38 کیسسز کی تصدیق خود کر سکتے ہیں لیکن لگ بھگ ایسے 300 پاکستانی شوہر ہیں جن کی چینی ایغور بیویاں اور بچے گزشتہ ایک سال سے سنکیانگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب بیگ جیسے پاکستانی تاجر پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ الیاس کا کہنا ہے،’’ یہ چین کی بہت بڑی غلطی ہے، پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں، لیکن اب سب پر یہ صورت حال ظاہر ہو گئی ہیں۔‘‘