پاکستان میں میڈیا اور صحافیوں پر حملوں نے آزادی اظہار اور اطلاعات تک رسائی کو بےحد مشکل کر دیا ہے۔ گزشتہ برس ملکی میڈیا اور صحافیوں پر حملوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد رہی۔ سب سے زیادہ حملے اسلام آباد میں کیے گئے۔
اشتہار
صحافیوں کے تحفظ اور اظہار رائے کے لیے سرگرم پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی آج تین مئی آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پچھلے برس ایک سو ستاون پاکستانی صحافیوں پر مختلف نوعیت کے حملے کیے گئے جبکہ پانچ صحافیوں کو قتل بھی کر دیا گیا۔ اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں صحافیوں پر حملوں کے سب سے زیادہ واقعات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دیکھنے میں آئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم از کم پانچ واقعات ایسے بھی ہیں، جن میں مختلف افراد پر سوشل میڈیا پر تنقیدی اظہار رائے کی وجہ سے بھی مقدمات درج کیے گئے۔ رواں برس انیس جنوری کو بین الاقوامی براڈکاسٹر مشال ریڈیو کے دفتر کو پاکستانی حکام نے بند کر دیا تھا تاکہ پاکستان میں اس ادارے کی خبریں اور تجزیے نشر نہ ہو سکیں۔
اپریل کے مہینے میں ایک بڑا تنازعہ یہ رہا کہ ملک کے سب سے بڑے نجی نشریاتی ادارے جیو ٹی وی کی نشریات ملک کے کئی حصوں میں وقفے وقفے سے بند کی جاتی رہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی میڈیا میں سنسرشپ کے واقعات بھی کافی زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ اس دوران ملک کے چند مقبول تجزیہ نگاروں مثلا طلعت حسین، سہیل وڑائچ، گل بخاری اور بابر ستار کے مضامین ان کے اپنی ہی اخباروں نے سنسر کر دیے یا سرے سے شائع ہی نہ کیے۔
اس حوالے سے حقائق جاننے کے لیے ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا سینئر صحافی اور تجزیہ نگار طلعت حسین سے اور ان سے پوچھا کہ ایک صحافی کے طور پر وہ اپنا جو بھی پیشہ وارانہ کام جیسے بھی کرنا چاہتے ہیں، کیا ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ یہ صحافتی کام بلا روک ٹوک کر سکیں؟ اس سوال کے جواب میں طلعت حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جو آپریشنل قدغن ہے، وہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ ہر چینل کی، ہر ادارے کی اپنی پالیسی ہے،چاہے وہ ڈوئچے ویلے ہو، وائس آف امریکا یا کوئی اور ادارہ۔ دوسری بات یہ کہ ہر چینل کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں، جن کے تحت کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ رکاوٹیں تو پاکستان میں ہیں ہی۔ لیکن جو اضافی پہلو ہمیں نظر آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ تنقید کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ تنقید صحافتی تنقید نہیں ہے بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ صحافی کسی اور کے ایجنڈے کے مطابق بول رہے ہیں۔ پھر زیادہ تنقید کرنے والے صحافیوں کو پروگراموں میں شامل نہیں کیا جاتا۔ یا ان پر سخت سنسرشپ ہوتی ہے۔ ایک اور بات یہ کہ جب چینل بند ہونا شروع ہو جائیں، تو مالکان پر بہت دباؤ ہوتا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ تنقید نہ کی جائے، جس سے صحافیوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے اور جسمانی تشدد کی مثالیں تو آپ کے سامنے ہیں ہی۔‘‘
طلعت حسین کے مطابق اس پوری صورتحال کا ذمہ دار کوئی ایک اکیلا فرد، چینل یا اخبار نہیں بلکہ معاملہ اس پورے ماحول کا ہے، جہاں صحافیوں نے کام کرنا ہوتا ہے۔ اگر قدغنیں لگیں گی، تو کام کیسے ہو گا؟ آج اگر ایک اخبار، ایک چینل یا چند صحافیوں پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، تو کل سب پر لگیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں مزید کہا، ’’اگر عدلیہ نے متحرک ہو کر نوٹس لیا ہے کہ کسی چینل کو بند نہیں ہونا چاہیے، تو پھرعدلیہ کو اس کا فیصلہ بھی کرنا چاہیے کہ کوئی چینل کیوں بند کیا جا رہا ہے؟ مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اسٹینڈ لیں۔ جب تک سب اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں گے، تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘‘
پردے کے پیچھے ...
ڈی ڈبلیو کا صحافتی عملہ گزشہ 65 برسوں سے آپ کی خدمت میں خبریں، تحقیقی رپورٹیں اور خصوصی انٹرویوز پیش کر رہا ہے۔
تصویر: DW
دور کے ممالک میں موجود معزز سامعین
’دور کے ممالک میں موجود معزز سامعین‘، تین مئی 1953ء کو ڈوئچے ویلے سے پہلی آواز وفاقی صدر تھیوڈور ہوئس کی ان افتتاحی کلمات کے ساتھ نشر کی گئی تھی۔ اس وقت ڈی ڈبلیو کے پروگرام کا مقصد بیرونی ممالک کے صارفین کو جرمنی کے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات سے آگاہی فراہم کرنا تھا۔
تصویر: DW
’آپ ریڈیو ڈوئچے ویلے سن رہے ہیں۔‘
مائیکرو فون پر امہاری سروس کی نیوز کاسٹر لیڈٹ آڈیبے ہیں۔ سابق وفاقی دارالحکومت بون میں واقع ڈی ڈبلیو ریڈیو اسٹیشن سے دنیا کی 30 مختلف زبانوں میں پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ امہاری زبان میں پیش کیے جانے والے پروگرام ایتھوپیا میں بہت مقبول ہیں۔
تصویر: DW/P. Henriksen
ہر دن ’غیرمعمولی‘ ہوتا ہے۔
ڈوئچے ویلے میں آج کے اہم ترین موضوعات کیا ہیں؟ آج دنیا کے کس خطے سے لائیو کوریج کی جائے گی؟ آج ویب سائٹ کی ٹاپ اسٹوری کون سی ہونی چاہیے؟ ڈی ڈبلیو کے ملٹی میڈیا ڈیسک پر ہر وقت پرائم ٹائم کی صورتحال ہوتی ہے۔ جس وقت بون میں سورج ڈوبتا ہے تو سڈنی میں دن کا آغاز ہو رہا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/P. Henriksen
ڈی ڈبلیو کے خصوصی انٹرویوز
ڈی ڈبلیو کے چینی زبان کے شعبے کے سربراہ ماتھیاس فان ہائن مصنفLiao Yiwu کا انٹرویو کر رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو ان لوگوں کی آواز بنتا ہے، جن کی آواز ان کے آبائی ملکوں میں دبا دی جاتی ہے۔
تصویر: Tobias Kleinod
کیا انٹرویو طویل ہے؟
ایک رپورٹ میں صرف اہم اور موضوع سے متعلق بیانات ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ شعبہء اردو کی ایڈیٹر کشور مصطفیٰ ڈیجیٹل سافٹ ویئر کے ذریعے ایک طویل انٹرویو سے غیر اہم نکات نکال رہی ہیں۔
تصویر: DW/P. Henriksen
وقفے کا وقت
پیا کاسترو، کارلوس ڈیگاڈو اور ان کی ٹیم کو وقفے کا وقت کم ہی ملتا ہے۔ ہسپانوی زبان کے ٹی وی پروگرام لاطینی امریکا میں روزانہ 20 گھنٹے نشر کیے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں ڈی ڈبلیو کے ٹی وی پروگرام جرمن، انگریزی، ہسپانوی اور عربی زبان میں چھ مختلف چینلز سے نشر کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Jan Roehl
تازہ ترین، سیاسی اور کامیاب
ڈی ڈبلیو کے پروگرام ’الشباب ٹاک‘ کو عرب دنیا میں شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ جعفر عبدالکریم پروگرام میں وہ تمام اہم موضوعات شامل کرتے ہیں، جو نوجوانوں کی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔
تصویر: Tobias Kleinod
نظریں یورپ پر
ترک زبان کے شعبے کی Özlem Coskun یورپ سے متعلق رپورٹوں اور تجزیوں پر مشتمل میگزین ’ڈی ڈبلیو اور یورپ‘ پیش کر رہی ہیں۔ سن 2012ء سے یہ پروگرام ترکی کے سرکاری ٹیلی وژن TRT Türk پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے ٹی وی میگزین پولینڈ، رومانیہ، البانیہ، کروشیا، بوسنیا، مقدونیہ اور بلغاریہ میں بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW
نشریات سے صرف 30 سیکنڈ پہلے
نشریات آپ تک پہنچانے کے لیے اسٹوڈیو میں نیوز کاسٹر کے ساتھ ساتھ پوری تکنیکی ٹیم موجود ہوتی ہے۔ تکنیکی ٹیم ٹرانسمشن کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ میزبان کو اس بارے میں بھی آگاہ رکھتی ہے کہ کب بولنا ہے اور کب نئی رپورٹ نشر کی جائے گی۔
تصویر: DW
معیاری صحافت سیکھیے
ڈی ڈبلیو اکیڈمی میں سالانہ 20 نوجوانوں کو صحافتی ٹریننگ دی جاتی ہے، جیسے کہ پاکستان سے آنے والے امتیاز احمد کو۔ صحافتی انٹرن شپ کے لیے دس نوجوانوں کا انتخاب جرمنی اور دس کا دنیا بھر کے مختلف ممالک سے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈی ڈبلیو اکیڈمی مقامی یونیورسٹیوں کے تعاون سے انٹرنیشنل میڈیا اسٹڈیز میں ماسٹرز بھی کرواتی ہے۔
میڈیا سے منسلک تمام افراد کے لیے
ڈی ڈبلیو اکیڈمی میں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ سے منسلک افراد تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس تصویر میں کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں ڈی ڈبلیو اکیڈمی کے سمر کورس میں شامل ایک خاتون صحافی کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW
11 تصاویر1 | 11
پاکستان میں بی بی سی اردو کے انچارج اور سینئر صحافی ہارون رشید سے جب ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے لیے کام کرتے ہوئے انہیں حالیہ مہینوں میں کس قسم کی سنسرشپ اور صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے کس طرح کے چیلنجز کا سامنا رہا ہے، تو انہوں نے کہا، ’’حکومتی اداروں کا طریقہ واردات اب کچھ تبدیل ہوا ہے۔ پہلے آپ کو براہ راست دھمکیاں، ٹیلی فون کالز یا ای میلز سے ملتی تھیں۔ اب ایسا نہیں ہے۔ نوعیت قدرے تبدیل ہو رہی ہے۔ وہ براہ راست کے بجائے کچھ اور ذرائع سے آپ کو یہ خبر پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جو فلاں خبر آپ نے نشر یا شائع کی، وہ اس سے خوش نہیں ہیں۔ تو اس طرح ’پیغام‘ پہنچانا اب پاکستان میں زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔‘‘
ہارون رشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب سے یہ پختون تحفظ موومنٹ شروع ہوئی ہے یا کوئی ایسا ایشو جو کسی ریاستی ادارے کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا ہو، تو اس پر اگر آپ بات کریں گے، تو ای میلز کے ذریعے یا پھر واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر لعن طعن شروع ہو جاتی ہے کہ کیوں اس طرح کے ایشوز اٹھاتے ہیں؟ کیوں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں؟ حالانکہ انٹرنیشنل براڈکاسٹرز کا تو کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ متوازن رپورٹنگ کی جائے، جس میں تمام فریقوں کا موقف شامل ہو۔‘‘
ڈوئچے ویلے نے جب ہارون رشید سے یہ پوچھا کہ آزادی صحافت کے بنیادی حق کے تحفظ کے لیے پاکستانی میڈیا اور ریاستی رویوں کے حوالے سے ان کی خواہشات کیا ہیں، تو انہوں نے بتایا، ’’خواہش تو یہی ہے کہ لوگوں میں برداشت اور صبر زیادہ ہو۔ جس طرح ہم آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں، کہ جو کہنا چاہیں کہیں، تو پھر اس کو برادشت بھی کیا جائے۔ دراصل ہم آزادی صحافت پر تو بہت توجہ دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ برداشت کے عنصر پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ دوسروں کی بات بھی سننا چاہیے۔ ہر بات پر یہ نہیں کہنا یا سمجھنا چاہیے کہ ضرور اس کے پیچھے کوئی اندرونی یا بیرونی سازش ہی ہو گی۔ ہر بات کو یہ رنگ نہیں دیا جانا چاہیے، ورنہ صحافت کے معنی اور مقصدیت کو نقصان پہنچے گا۔‘‘
لیکن پاکستانی معاشرے میں کچھ ٹی وی چینلز اور اخبارات اور ان کے چند مخصوص کارکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ یا ناپسندہ کیوں ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہارون رشید نے یوں دیا، ’’پہلے یہ کافی ہوتا تھا کہ اس اخبار کے چار رپورٹر ہیں، ان سے کسی بھی طرح اپنی بات کہلوا یا لکھوا لیں گے۔ لیکن پاکستان میں چونکہ پچھلے کئی برسوں کے دوران میڈیا ہاؤسز کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، اس لیے یہ اب ممکن نہیں رہا۔ درجنوں ٹی وی چینل آ گئے ہیں، ریڈیو اسٹیشنز ہیں، اخبارات ہیں۔ تو اب جو چاہتے ہیں کہ میڈیا کو کنٹرول کریں، انہوں نے طریقہ یہ اپنایا ہے کہ اداروں کے مالکان سے، جو گنے چنے ہی ہوں گے، بات کر کے اپنی مرضی کی کوریج کرواتے ہیں۔ پاکستان میں اب یہی انداز عمومی رواج پا رہا ہے۔‘‘
صحافیوں کے تحفظ اور اظہار رائے کے لیے کام کرنے والی پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے ڈائریکٹر اقبال خٹک نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’اگر صحافی غیر محفوظ ہوں گے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ میڈیا آزاد نہیں۔ اگر میڈیا آزاد نہیں، تو اس کا مطلب ہو گا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے، کیونکہ اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کی ایک بنیادی شرط ہے۔ ملک کی صحافتی تنظیمیں کئی برسوں سے مطالبے کرتی چلی آ رہی ہیں کہ صحافیوں پر حملے کرنے والوں کو قانونی اور عدالتی نظام کے ذریعے جواب دہ بنایا جائے۔‘‘
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔
تصویر: DW/K. Blazevska
10 تصاویر1 | 10
اقبال خٹک نے کہا کہ یکم مئی دو ہزار سترہ سے یکم مئی دو ہزار اٹھارہ تک کے ایک سال میں پاکستانی میڈیا پر کم از کم ایک سو ستاون حملوں ہوئے اور یہ واقعات چاروں صوبوں کے علاوہ اسلام آباد اور قبائلی علاقوں میں بھی ریکارڈ کیے گئے۔ ایک ماہ میں اوسطا قریب پندرہ واقعات میں قتل، اغوا، جسمانی حملوں کی دھمکیاں اور ہراساں کیے جانے کے واقعات۔ یعنی ہر دوسرے روز ایک حملہ۔
سن 2012 میں اقوام متحدہ نے صحافیوں پر عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے حملوں کے سدباب کے لیے ایک رہنما ایکشن پلان ترتیب دیا تھا، جس میں پاکستان اس پر عملدرآمد کے لیے پانچ پائلٹ ممالک میں شامل تھا۔ دو ہزار تیرہ میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت نے اس پلان کی جزیات قبول کرنے کے باوجود اس کے دو سب سے بڑے حصوں پر چار سال گزر جانے کے باوجود عملدرآمد نہیں کیا۔ اس میں پہلا حصہ ایک خصوصی قانون برائے تحفظ صحافی اور دوسرا حصہ صحافیوں پر حملوں کی تفتیش کے لیے ایک خصوصی پراسیکیوٹر کے دفتر کا قیام شامل ہے۔
صحافیوں پر حملوں کی روک تھام کے لیے جو قانون بننا ہے، وہ اب تک کیوں نہیں بنا، حالانکہ اس بل کے لیے تمام بڑی پارٹیوں کی حمایت موجود ہے۔ کیا پاکستان پیپلز پارٹی اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اسے اپنے نئے منشور میں کوئی جگہ دے گی یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں پیپلز پارٹی کے (اب سابقہ) سینیٹر فرحت اللہ بابر نے نیشنل پریس کلب میں ایک حالیہ مشاورت کے دوران حکومت پر صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی بل پارلیمنٹ میں ترجیحی بنیادوں پر پاس کرنے پر زور دیا۔
فرحت اللہ بابر نے اپنی سینیٹ کی رکنیت کی مارچ دو ہزار اٹھارہ میں میعاد مکمل ہونے سے قبل حکومت، میڈیا مالکان، میڈیا ورکرز اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک ماڈل بل کا مسودہ بھی تیار کیا تھا، لیکن یہ معاملہ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن کی وجہ سے التوا میں چلا گیا تھا۔ فرحت اللہ بابر کا اب بھی یہی کہنا ہے کہ ایک قانونی بل کے ساتھ صحافیوں کے تحفظ کو تسلسل سے یقینی بنایا جا سکے گا۔
آزادی صحافت کی درجہ بندی: چھ پس ماندہ ترین ممالک
آئے دن صحافی اور بلاگرز پر حملے ہوتے ہیں اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اس بار اس دن کے حوالے سے میڈیا کی آزادی کے دشمن سمجھے جانے والے دنیا کے چھ بدترین ممالک کی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔
تصویر: Fotolia/picsfive
شام میں آزادی صحافت کو درپیش مسائل
صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت سے اب تک متعدد صحافی اور بلاگرز یا تو مار دیے گئے ہیں یا تعاقب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کئی سالوں سے شام کو پریس کی آزادی کا دشمن ملک کہتی آئی ہے۔ شام میں حکومت ہی نہیں بلکہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو اور النصرہ فرنٹ، جو اسد کے خلاف لڑ رہے ہیں، بھی شامی حکومتی میڈیا کے صحافیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: Abd Doumany/AFP/Getty Images
چین میں پریس کی آزادی کا فقدان
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق چین صحافیوں اور بلاگرز کے لیے سب سے بڑی جیل کے مانند ہے۔ آمرانہ حکومت رائے کی آزادی کی سخت دشمن ہے۔ وہاں غیر ملکی صحافیوں پر دباؤ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ملک کے کچھ حصے ان کے لیے بند ہیں۔ صحافیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور انٹرویو دینے والوں اور معاونین کو اکثر و بیشتر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
ویت نام، حکومت کے ناقدین کے خلاف جنگ
ویت نام میں آزاد میڈیا کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ واحد حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی صحافیوں کو بتاتی ہے کہ انہیں کیا شائع کرنا چاہیے۔ ناشر، مدیر اور صحافیوں کا پارٹی ممبر ہونا لازمی ہے۔ بلا گرز حکام کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری کے خلاف لکھنے والے بلاگرز کو سنگین نتائج کا سامنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/ZB/A. Burgi
ترکمانستان، خطرناک صورتحال
ترکمانستان کے صدر سرکاری میڈیا پر قابض ہیں۔ استثنا محض اخبار’ریسگال‘ کو حاصل ہے، تب بھی اس کا ہر ایڈیشن صدر کے حکم سے شائع ہوتا ہے۔ اس ملک میں میڈیا پر اجارہ داری کے خلاف ایک نیا قانون بھی جاری ہو گیا ہے، جس کے بعد سے ترکمانستان کے عوام کی غیر ملکی خبر ایجنسیوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور زیادہ تر ویب سائٹس بلاک کر دی گئی ہیں۔
تصویر: Stringer/AFP/Getty Images
شمالی کوریا، آمر حاکم کی حکمرانی میں
’پریس کی صحافت‘ کی اصطلاح سے شمالی کوریا کا کوئی واستہ نہیں۔ اس ریاست میں آزاد رپورٹننگ صحافیوں کے لیے ناممکن ہے۔ ساری دنیا سے کٹے ہوئے آمر حکمران کم یونگ اُن اپنے میڈیا پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ یہاں محض حکومتی نشریاتی ادارہ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز چلا رہا ہے، جس نے اپنی آزاد رائے کا اظہار کیا وہ اپنی فیملی سمیت سنگین مشکلات سے دو چار ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yonhap/Kcna
اریتریا، افریقہ کا شمالی کوریا
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے افرقیہ کے آمر حکمرانی والے ملک اریتریا کو اپنی اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر رکھا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق دنیا کے کسی دوسرے ملک میں صحافت کے ساتھ اتنا بُرا سلوک نہیں ہو رہا ہے، جتنا اس افریقی ریاست میں۔ بمشکل ہی اس بارے میں مقامی میڈیا کی کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے۔ بہت سے صحافیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔