پاکستانی صدر آصف زرداری کے غیرملکی دورے کا آغاز
17 ستمبر 2009اِسی دوران امریکی حکومت نے افغانستان اور پاکستان میں اپنے آئندہ اہداف کی ایک فہرست تیار کی ہے، جس کا مقصد عسکریت پسندوں کے خلاف اِن دونوں ملکوں کی مقامی سیکیورٹی فورسز کو مضبوط بنانا اور یوں اِس خطے میں امریکی دستوں کی نفری میں کمی لانا ہے۔ اِس فہرست میں ان دونوں ملکوں میں دہشت گرد تنظیموں کی تباہی کو اولین ترجیح قرار دیا گیا ہے۔
پاکستانی صدر آصف علی زرداری آج متحدہ عرب امارات سے برطانیہ کے لئے روانہ ہو رہے ہیں، جہاں وہ اپنے سہ روزہ قیام کے دوران برطانوی حکام سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ کل جمعہ کو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ایک اجتماع میں پاکستان کو درپیش اسٹریٹیجک چیلنجوں اور امکانات کے موضوع پر خطاب کریں گے۔
بیس ستمبر کو زرداری نیویارک پہنچیں گے، جہاں چوبیس ستمبر کو امریکی صدر باراک اوباما اور برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن کے ہمراہ فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے ایک بڑے اجتماع میں شریک ہوں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے گئے ہوئے متعدد دیگر سربراہانِ مملکت و حکومت بھی اِس اجتماع میں شریک ہوں گے اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جمہوری حکومت کے لئے تائید و حمایت کا اعلان کریں گے۔ کل بدھ کو اقوامِ متحدہ میں برطانیہ کے سفیر جون ساؤرز نے کہا کہ اِس اجتماع میں پاکستان کے لئے امداد کے حوالے سے اُس کامیابی کو آگے بڑھایا جائے گا، جو گذشتہ مہینے استنبول میں وزارتی سطح کے ایک اجلاس میں حاصل ہوئی تھی۔ اِستنبول منعقدہ اِس اجلاس میں فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان گروپ کے ارکان کے درمیان ایسی حکمتِ عملی پر اتفاقِ رائے ہو گیا تھا، جس سے پاکستان کو مستحکم کیا جا سکے اور اُن لاکھوں پاکستانی پناہ گزینوں کی مدد کی جا سکے، جو عسکریت پسندوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اِسی دوران امریکہ میں افغانستان اور پاکستان میں امریکی اہداف کی جو فہرست تیار کی گئی ہے، اُس میں بھی پاکستان میں حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے استحکام کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل اِس ملک کو مستحکم کرنے کے عمل میں عالمی برادری کو زیادہ سے زیادہ شریک کیا جانا چاہیے۔ دستاویز کے مطابق امریکی انتظامیہ پاکستان کی جمہوری حکومت اور عدلیہ کو مزید مستحکم اور فوجی مداخلت سے پاک دیکھنا چاہتی ہے۔
اس دستاویز کے مطابق امریکی اقدامات کا مقصد ایسے حالات پیدا کرنا ہے، کہ انتہا پسندوں کے بیرونی دنیا میں کوئی بھی دہشت پسندانہ کارروائی کرنے کے تمام امکانات ختم ہو جائیں۔ اس دستاویز میں افغانستان میں امریکی دستوں کی نفری میں اضافے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ جہاں مبصرین کے خیال میں افغانستان میں ISAF دستوں کے امریکی کمانڈر اسٹینلے میک کرسٹل عنقریب اِس ملک میں مزید امریکی فوجی تعینات کرنے کی درخواست کرنے والے ہیں، وہاں امریکہ میں یہ ایک متنازعہ موضوع ہے۔ ری پبلکنز مزید دستے روانہ کرنے کے حق میں ہیں، ڈیموکریٹس اِس کے خلاف ہیں۔ کل واشنگٹن میں کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہاپر کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ وہ مزید دستےبھیجنے کے بارے میں کوئی فوری فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل