پاکستانی ضلع کرم میں ایک ہفتے میں ہلاکتوں کی تعداد اب نواسی
27 نومبر 2024قومی سطح پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبے میں صوبے خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ اسی وجہ سے کرم میں گزشتہ عشروں کے دوران بار بار فرقہ وارانہ تصادم دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ وہاں بدامنی اور ہلاکتوں کی تازہ ترین لہر بھی اسی کشیدگی کا تسلسل ہے۔
کرم میں موجودہ ہلاکت خیز کشیدگی اس وقت شروع ہوئی، جب گزشتہ جمعرات کے روز پولیس کی حفاظت میں سفر کرنے والے مقامی شیعہ مسلمانوں کے دو علیحدہ علیحدہ قافلوں پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 43 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستانی ضلع کرم میں تین روز میں بیاسی ہلاکتیں، ڈیڑھ سو سے زائد زخمی
بعد ازاں خیبر پختونخوا کے صوبائی حکام نے رواں ہفتے متحارب مذہبی گروپوں کے مابین فائر بندی کے لیے ثالثی کوششیں کیں اور ایک فائر بندی معاہدہ طے بھی پا گیا تھا۔ تاہم اس معاہدے پر مسلسل عمل درآمد نہ ہو سکا۔
ضلع کرم کے ایک مقامی سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ''مختلف علاقوں سے اب بھی وقفے وقفے سے فائرنگ کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔‘‘
اس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سات دنوں کے دوران ہونے والی 89 ہلاکتوں میں تازہ ترین تصادم کے نتیجے میں ہونے والی دو نئی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ ان کے بقول،''مقامی قبائلی عمائدین فائر بندی کے لیے نئے سرے سے مذاکرات کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ نئی فائر بندی آج یا کل نافذ العمل ہو جائے گی۔‘‘
فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد کرم میں صورت حال کیسی ہے؟
کرم میں گزشتہ ہفتے شیعہ مسلمانوں کے جن دو علیحدہ علیحدہ قافلوں پر حملہ کیا گیا تھا، ان میں قریب پچاس گاڑیاں شامل تھیں جبکہ ان کی حفاظت کے لیے پولیس کی محض ایک گاڑی ساتھ تھی، جس میں پانچ اہلکار سوار تھے۔ مقامی شیعہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پارا چنار اور پشاور کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے حفاظتی اقدام کے جو وعدے کیے گئے تھے، وہ بھی پورے نہیں کیے گئے تھے۔
اس سلسلے میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
پاکستان: کرم کا 'دہشت گردانہ حملہ سراسر حیوانیت' ہے، شہباز شریف
پولیس نے کرم میں، جو ماضی میں وفاق کے زیر انتظام نیم خود مختار قبائلی علاقوں کا حصہ تھا، تشدد پر قابو پانے کے لیے باقاعدگی سے جدوجہد کی، اس وقت تک جب 2018 ء میں سابقہ فاٹا علاقوں کو ضم کر کے خیبر پختونخوا کے باقاعدہ اضلاع بنا دیا گیا تھا۔
موجودہ بدامنی سے قبل کرم میں گزشتہ ماہ بھی فرقہ وارانہ تصادم میں تین خواتین اور دو بچوں سمیت کم از کم 16 افراد مارے گئے تھے۔
ایک غیر حکومتی ادارے کے طور پر کام کرنے والے پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ملک میں اس سال جولائی سے اکتوبر تک فرقہ وارانہ بدامنی کے کئی واقعات میں 79 افراد مارے گئے تھے۔
ک م/ م م (اے ایف پی)