1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
قانون کی بالادستیپاکستان

پاکستانی ضلع کرم میں تین روز میں بیاسی ہلاکتیں

24 نومبر 2024

پاکستان میں فرقہ وارانہ حملوں اور جھڑپوں میں گزشتہ تین روز میں کم از کم بیاسی افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک مقامی اہلکار نے اتوار کی صبح بتایا کہ یہ ہلاکتیں صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ہوئیں۔

بدامنی میں مارے جانے والے سنی مسلم شہریوں کی نماز جنارہ کی تیاریاں
ضلع کرم میں گزشتہ تین روز میں کم از کم بیاسی مقامی شہری ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Dilawer Khan/AFP/Getty Images

خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے اتوار 24 نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے ساتھ پاکستان کی قومی سرحد کے قریب واقع اور ماضی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یا فاٹا کہلانے والے خطوں میں سے ایک کرم میں، جو اب ضلع کرم کہلاتا ہے، یہ درجنوں ہلاکتیں مقامی شیعہ اور سنی مسلمانوں‌ کے مابین اس کشیدگی کا نتیجہ ہیں، جو وہاں گزشتہ کئی عشروں سے پائی جاتی ہے۔

پاکستان: کرم کا 'دہشت گردانہ حملہ سراسر حیوانیت' ہے، شہباز شریف

پاکستان مجموعی طور پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہے، لیکن ملک کے کئی دیگر علاقوں کی طرح ضلع کرم میں بھی شیعہ مسلم آبادی کی اکثریت ہے۔

حکام کے مطابق ضلع کرم کی مرکزی شاہرہ پر ٹریفک معطل ہےتصویر: Basit Gilani/AFP

جمعرات سے لے کر گزشتہ رات تک جھڑپیں جاری

کرم کی مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ رواں ماہ کی 21 تاریخ کو کرم میں شیعہ مسلمانوں کے دو قافلوں پر جو علیحدہ علیحدہ خونریز حملے کیے گئے تھے، ان کے بعد ہونے والے دیگر حملے اور مسلح جھڑپیں 22 اور 23 نومبر کو بھی جارہے رہے اور ان میں اب تک مجموعی طور پر ''کم از کم 82 افراد ہلاک اور 156 زخمی ہو چکے ہیں۔‘‘

پاکستان: کرم میں قبائل کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 30 ہلاک

خونریزی کے اس نئے سلسلے کی ابتدا جمعرات 21 نومبر کو جن دو بڑے حملوں سے ہوئی تھی، ان میں کم ازکم 43 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان حملوں کے بعد سے دونوں مذہبی گروپوں کے متحارب ارکان کے مابین ہونے والے جھڑپوں میں ان ہلاکتوں کی تعداد اب تقریباﹰ دو گنا ہو چکی ہے۔

اکیس نومبر کو دو قافلوں پر فرقہ وارانہ حملوں میں تینتالیس افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: REUTERS

مقامی حکام کے مطابق مرنے والے کم از کم 82 افراد میں سے 16 مقامی سنی مسلم تھے اور 66 کا تعلق مقامی شیعہ آبادی سے تھا۔

سینکڑوں مقامی خاندان متاثرہ علاقے سے روانہ ہو گئے

اس بدامنی کی وجہ سے مقامی باشندوں کے تقریباﹰ 300 خاندان کل ہفتے کے روز اس خونریزی سے جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے ضلع کرم کے متاثرہ علاقے سے رخصت ہو گئے جبکہ فریقین کے مابین جھڑپیں کل ہفتے کو رات گئے تک جاری رہیں۔

ضلع کرم میں دو قبائل کے مابین تصادم، ہلاکتوں کی تعداد 42 ہوگئی

حکام کے بقول آج اتوار کی صبح سے ضلع کرم سے اس بدامنی میں کسی نئی انسانی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

پارا چنار میں مقامی شیعہ خواتین مظاہرین کے احتجاج کا ایک منظرتصویر: Arif Ali/AFP

مقامی انتظامیہ کے حکام کے مطابق کرم کے پورے ضلع میں موبائل فون نیٹ ورک سروس ابھی تک بند ہے جبکہ اس ضلع کی مرکزی ہائی وے پر ٹریفک بھی معطل ہے۔

اسی دوران پشاور میں صوبائی حکومت کے ایک وفد نے کل ہفتے کی شام کرم میں مقامی شیعہ آبادی کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور یہی وفد انتہائی کشیدہ صورت حال میں بہتری کے لیے آج اتوار کو بعد ازاں مقامی سنی مسلم آبادی کے نمائندوں سے بھی ملنے والا ہے۔

کرم میں ان ملاقاتوں کے بارے میں صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم آفریدی نے آج اتوار کے روز اے ایف پی کو بتایا، ''اس وقت ہماری سب سے بڑی ترجیح اطراف کے مابین فائر بندی کو یقینی بنانا ہے۔ اس لیے کہ ایک بار فائر بندی ہو گئی، تو پھر ہم دیگر معاملات کو حل کرنے کی کوششیں بھی کر سکیں گے۔‘‘

م م / ش ر (اے ایف پی، اے پی)

ہزارہ کمیونٹی کا احتجاج، تدفین سے انکار

03:50

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں