1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان کمانڈر کے معاملے پر افغانوں اور امریکیوں کا جھگڑا

امتیاز احمد30 اکتوبر 2013

امریکیوں نے افغانستان میں چھاپا مار کارروائی کرتے ہوئے لطیف محسودکو پکڑ لیا تھا۔ مبینہ طور پر افغان خفیہ ادارے پاکستانی طالبان سے رابطے قائم کرتے ہوئے پاکستانی فوج سے انتقام لینا چاہتے تھے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں چند ہفتے پہلے امریکی فوج کے اسپیشل کمانڈوز رات کے اندھیرے میں چھاپا مار کارروائی کرتے ہوئے پاکستانی طالبان لیڈر لطیف محسود کو افغان سکیورٹی اہلکاروں سے چھین کر بگرام ایئر بیس پر لے گئے تھے۔ اس کارروائی کے وقت افغان خفیہ اہلکار بھی لطیف محسود کے ساتھ تھے۔ اب اس معاملے پر افغانوں اور امریکیوں کے مابین لڑائی جاری ہے۔ افغانوں کے مطابق لطیف محسود ان کے لیے رابطہ کار تھا جب کہ امریکی اسے اپنا دشمن قرار دیتے ہیں۔

جرمن اخبار ڈئیر اشپیگل کے مطابق لطیف محسود پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا بااعتماد ساتھی ہے اور یہی گروپ نیویارک میں ٹائمز اسکوائر پر 2010ء میں بم حملے کی ناکام کوشش کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔

کابل اور واشنگٹن کے مابین اختلافات

اس واقعے کے بعد کابل اور واشنگٹن حکومت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکیوں کا کہنا ہے کہ افغان خفیہ اداروں کی طرف سے لطیف محسود کو افغانستان لانے کا مقصد پاکستانی طالبان پر اثرو رسوخ بڑھانا تھا تا کہ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اس کے برعکس افغان حکومت کا الزام عائد کرتے ہوئے ہے کہ اس امریکی خفیہ کارروائی سے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا عمل سبوتاژ ہو گیا ہے۔ کابل حکومت کے مطابق محسود کو امن مذاکرات کے لیے کابل لایا جا رہا تھا۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس پاکستانی طالبان کو اپنے لیے استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد حکومت سے انتقام لینا چاہتی تھی۔ کابل حکومت ایک عرصے سے پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کرنے کے الزامات عائد کرتی آئی ہے اور اب افغان خفیہ ادارے کھیل کا رخ تبدیل کرنا چاہتے تھے۔

جرمن جریدے کے مطابق امریکا انخلاء کے بعد افغانستان میں کم از کم خون خرابہ دیکھنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن میں تقریبا سبھی کو افغانستان میں طالبان کی خونی مزاحمت اور اس میں پاکستانی کردار کے بارے میں علم ہے۔ میگزین کے مطابق اگر اب افغانستان بھی اپنے ہمسایہ ملک میں مقامی شدت پسندوں کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو وسیع تشدد میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا اور اس سے افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی خطرے میں پڑ جائے گی۔

کرزئی حکومت کے خلاف بے اعتمادی میں اضافہ

جرمن میگزین کے مطابق امریکی سفارت کار خوش ہیں کہ خوش قسمتی سے کابل حکومت کے ارادوں کے بارے میں ابتدا میں ہی پتہ چلا لیا گیا ہے اور انہیں روک دیا گیا ہے۔ لیکن اس وقعے سے کرزئی حکومت کے خلاف امریکی بے اعتمادی کو بھی تقویت ملی ہے۔ امریکا کے لیے یہ اقدام مکمل طور پر غیر متوقع تھا۔

ایک امریکی افسر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ماضی میں کرزئی حکومت نےکسی ہمسایہ ملک کے ممکنہ حملے کی صورت میں امریکی سکیورٹی کی گارنٹی بھی مانگی تھی اور یہ ایک چال تھی۔ ’’اگر دونوں ملکوں کے مابین کوئی جارحیت ہوتی ہے تو ہم عین درمیان میں ہوتے اور ہم یہ کردار نہیں ادا کرنا چاہتے۔‘‘

دوسری جانب افغان اپنی نئی حکمت عملی کا دفاع کرتے ہیں۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ سن 2015ء سے ملک کی ذمہ داریاں ان کے پاس ہوں گی اور اس حوالے سے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ افغان حکام کے مطابق وہ محسود سے اس حوالے سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح پاک افغان سرحدی علاقوں سے طالبان کے حملوں کو روکا جا سکتا ہے۔ ایک امن معاہدہ کیا جانا تھا کہ پاکستانی طالبان افغان آرمی کو نشانہ نہیں بنائیں گے اور جواباً افغان سکیورٹی اہلکار طالبان کو کچھ نہیں کہیں گے۔

امریکیوں اور افغانوں کے درمیان یہ تنازعہ ابھی حل نہیں ہوا ہے۔ کابل کے صدارتی محل کا کہنا ہے کہ محسود کو امریکیوں سے واپس لینے کے حوالے سے دباؤ جاری رکھا جائے گا۔ دوسری جانب یہ معاملہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں