پاکستانی طالبان کی امن مذاکرات کی پیشکش، کتنی سنجیدہ؟
12 مئی 2022
پاکستانی طالبان نے امن مذاکرات کے لیے جنگ بندی میں سولہ مئی تک کی توسیع کا اعلان کر دیا ہے۔ گزشتہ سال بھی حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کیے تھے جو ناکام رہے تھے۔
اشتہار
تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی میں یکطرفہ طور پر توسیع کا اعلان کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو امن مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ جنگجوؤں کے دو مختلف ذرائع نے یہ بات فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتائی ہے۔
گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں طالبان کی عمل داری کے بعد سے پاکستانی طالبان نے پاکستان میں سکیورٹی دستوں کے خلاف حملے بڑھا دیے ہیں۔ اسلام آباد حکومت نئی افغان انتظامیہ پر الزام لگاتی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں سمیت دیگر عسکریت پسند گروہوں کو پناہ دے رہی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ جنگجو سرحد پار کر کے حملہ کرنے آتے ہیں۔ یہ مسئلہ سفارتی تناؤ کا باعث بن گیا ہے۔
عسکریت پسندوں کے دو ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ عید کے تہوار کے لیے ٹی ٹی پی کی جنگ بندی میں اب 16 مئی تک کے لیے توسیع کر دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں تحریک طالبان پاکستان نے اپنے جنگجوؤں کو ایک خط تحریر کیا ہے، جس میں انہیں ہدایت دی گئی ہے کہ مرکزی کمان سے دیے گئے حکم کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔
انتہا پسندی نے قبائلی خواتین کو کیسے متاثر کیا؟
افغان سرحد سے متصل پاکستانی ضلع مہمند کی رہائشی پچپن سالہ خاتون بصوالیحہ جنگجوؤں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اپنے شوہر اور بیٹے کو کھو چکی ہیں۔ اب خطرہ ہے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں قدم جما سکتے ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سخت اور کٹھن زندگی
پاکستانی قبائلی علاقوں کی خواتین کے لیے زندگی مشکل ہی ہوتی ہے۔ ضلع مہمند کے گاؤں غلنی کی باسی پچپن سالہ بصوالیحہ کی زندگی اس وقت مزید اجیرن ہو گئی، جب سن 2009 میں اس کا بیٹا اور ایک برس بعد اس کا شوہر جنگجوؤں کے حملے میں ہلاک ہو گئے۔ سن2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا یہ علاقہ بھی طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
ہر طرف سے حملے
بصوالیحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کا تئیس سالہ بیٹا مقامی امن کمیٹی کے ایما پر ہلاک کیا گیا۔ طالبان مخالف مقامی جنگجو گروپ کو شک ہو گیا تھا کہ وہ طالبان کو تعاون فراہم کر رہا تھا۔ پاکستانی فوج کے عسکری آپریشن کے بعد اس علاقے میں قیام امن کی امید ہوئی تھی لیکن اب افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے باعث اس سرحدی علاقے میں طالبان کی واپسی کا خطرہ ہے۔
تصویر: dapd
پرتشدد دور
بصوالیحہ کا شوہر عبدالغفران چھ دسمبر سن2010 کو ایک سرکاری عمارت میں ہوئے دوہرے خود کش حملے میں مارا گیا تھا۔ وہ وہاں اپنے بیٹے کی ہلاکت کے لیے سرکاری طور پر ملنے والی امدادی رقم لینے کی خاطر گیا تھا۔ بصوالیحہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں کسی محرم مرد کی عدم موجودگی عورت کی زندگی انتہائی مشکل بنا دیتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
امید نہیں ٹوٹی
اب بصوالیحہ انتہائی مشکل سے اپنا گزارہ کرتی ہیں۔ ان کے گاؤں میں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔ وہاں گیس، بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی میں بھی مسائل ہیں۔ تاہم بصوالیحہ اب تک پرعزم ہیں۔ انہوں نے سرکاری امداد لینا بھی چھوڑ دی تھی، جو دس ہزار روپے ماہانا بنتی تھی۔ تاہم سن 2014 میں حکومت نے یہ امدادی سلسلہ بھی روک دیا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سلائی کڑھائی سے آمدنی
بصوالیحہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچیاں اچھی تعلیم حاصل کریں۔ ڈی ڈؓبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ خود کو بے کار تصور کرنے لگیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس معاشرے میں اپنی بقا کھو دیں گی۔ اگرچہ وہ سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے وہ مہمند ایجنسی کی کسی بھی دکان پر بغیر مرد کے نہیں جا سکتیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
محرم مرد کے بغیر کچھ نہیں
بصوالیحہ کے بقول شوہر کی موت کے بعد وہ تندور چلانے لگیں جہاں ان کی چھوٹی بیٹیاں روٹیاں فروخت کرتی تھیں لیکن اب وہ بالغ ہو چکی ہیں اور اس علاقے میں لڑکیاں اس طرح آزادانہ یہ کام نہیں کر سکتیں۔ اس لیے انہوں نے اب یہ کام چھوڑ کر سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا۔ محرم مرد کی عدم موجودگی کے باعث وہ بازار میں یہ مصنوعات فروخت نہیں کر سکتیں، اس لیے وہ انہیں مقامی مردوں کو کم داموں پر فروخت کرتی ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
مزید تشدد کا خطرہ؟
پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں، جو اسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ بصوالیحہ کے برادر نسبتی عبدالرزاق کے بقول انہیں اب تک یاد ہے، جب ان کے بھائی حملوں میں مارے گئے تھے۔ وہ دعا گو ہیں کہ مستقبل میں ایسا دور دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے، جب طالبان کا تشدد عروج پر تھا۔ تاہم ان کے بقول اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
تصویر: Saba Rehman/DW
7 تصاویر1 | 7
ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی ثالثوں کی ایک ٹیم ٹی ٹی پی کی قیادت سے ملاقات کے لیے افغانستان گئی ہے۔ ان مذاکرات کا انتظام افغان طالبان نے کیا ہے۔ پاکستان نے سرکاری طور پر ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک ماہ طویل جنگ بندی کے دوران امن مذاکرات کیے جو بالآخر ناکام ہو گئے تھے۔
گزشتہ ماہ افغان طالبان نے کہا تھا کہ مشرقی افغانستان میں پاکستانی فضائی حملے میں 47 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان نے اس حملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن کابل پر زور دیا کہ وہ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اپنی سرحد کو محفوظ بنائے۔
افغان طالبان نے اس حملے کو 'ظالمانہ‘ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اس نے 'افغانستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کی راہ ہموار کی۔‘ مارچ میں اسلامک اسٹیٹ کے ایک خودکش بمبار نے، جو حکام کے مطابق افغان شہری تھا، شمال مغربی پاکستان میں ایک مسجد میں 64 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں عسکریت پسند گروپوں کو اس وقت کافی آزادی حاصل ہے۔