پاکستانی طالبان کے مالی مددگار کی امریکی جیل سے رہائی کا حکم
12 اکتوبر 2019
امریکی ریاست فلوریڈا کی ایک عدالت نے پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں کی مالی مدد کرنے والے ایک چوراسی سالہ سزا یافتہ مسلم مذہبی رہنما حفیظ خان کی انسانی بنیادوں پر جیل سے قبل از وقت رہائی کا حکم دے دیا ہے۔
اشتہار
ریاست فلوریڈا میں میامی سے ہفتہ بارہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق حفیظ خان کے بارے میں یہ فیصلہ میامی کی ایک یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج رابرٹ اسکولا نے کل جمعہ گیارہ اکتوبر کو سنایا۔
جج اسکولا نے حکم دیا کہ حفیظ خان کو پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی مالی مدد کرنے کا الزام ثابت ہو جانے پر سزائے قید سنائی گئی تھی، لیکن اب انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جیل سے قبل از وقت رہا کر دیا جانا چاہیے۔
حفیظ خان کی عمر اس وقت 84 برس ہے اور ان کے خلاف یہ الزام ثابت ہو گیا تھا کہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مالی مدد کرتے ہوئے اس تحریک کو کم از کم بھی 50 ہزار امریکی ڈالر مہیا کیے تھے۔ اس مسلم مذہبی رہنما کو 2013ء میں پچیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ان کے خلاف اس عدالتی فیصلے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے پاکستانی طالبان کے جس عسکریت پسند گروپ کو یہ مالی وسائل مہیا کیے تھے، وہ صرف پاکستان ہی میں ممنوع نہیں تھا بلکہ اس وقت امریکا نے بھی اس پاکستانی عسکریت پسند تنظیم کو قانونی طور پر ممنوع اور ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
حفیظ خان اس وقت امریکی ریاست شمالی کیرولائنا کی ایک جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔ میامی ڈسٹرک کورٹ کے جج رابرٹ اسکولا کے مطابق انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس لیے جیل سے قبل از وقت کر دیا جانا چاہیے کہ وہ نمونیا اور سرطان کے علاوہ ڈیمینشیا کے بھی مریض ہیں اور اب بول بھی نہیں سکتے۔
اس عدالتی فیصلے سے قبل امریکا کے وفاقی وکلائے استغاثہ نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ حفیظ خان آج بھی ایک خطرہ ہیں، جو انتہا پسندوں پر اثر انداز ہونے کے علاوہ ممکنہ طور پر انہیں نئے سرے سے مالی وسائل فراہم کرنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔
اس کے برعکس جج رابرٹ اسکولا کا کہنا تھا کہ ایک چوراسی سالہ شدید بیمار اور ڈیمینشیا کا مریض، جو بول بھی نہیں سکتا اور قریب المرگ ہے، اس حالت میں نہیں کہ کسی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکے۔
حفیظ خان کو شمالی کیرولائنا کی ایک جیل سے رہائی کے بعد اسی امریکی ریاست میں ریلے کے مقام پر طبی نگہداشت کے ایک ایسے رہائشی مرکز میں پہنچا دیا جائے گا، جو اصطلاحاﹰ 'ہوسپِس‘ کہلاتا ہے۔ ایسے مراکز میں ان مریضوں کو رکھا جاتا ہے، جو انتہائی بیمار، ناقابل علاج اور قریب المرگ ہوتے ہیں، تاکہ وہ اپنی بقیہ اور بظاہر بہت محدود زندگی طبی عملے کی نگرانی میں لیکن سکون سے گزار سکیں۔
م م / ع س (اے پی)
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔