1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طلبا واپس چین پہنچنے کی اجازت کے منتظر

9 جون 2021

ہزاروں پاکستانی طلبا اس وقت واپس چین جانے کی اجازت کے منتظر ہیں۔ چین قریب قریب کورونا وبا پر کنٹرول حاصل کر چکا ہے اور غیر ملکی طلبا کو تعلیم مکمل کرنے کی اجازت بھی دے چکا ہے۔

Pakistan Flughafen Islamabad - Wiederaufnahme der Flüge nach China
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

زیادہ تر پاکستانی طلبا کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے گزشتہ برس کے آخری مہینوں میں واپس چین پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ تاخیر کی وجہ سے ان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ ان طلبا نے پاکستانی اور چینی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی واپسی کے نظام الاوقات کو حتمی شکل دیں لیکن ابھی تک دونوں جانب سے کوئی پیش رفت دیکھی نہیں گئی۔

چین میں کنڈرگارٹن کا کیا معمول ہوتا ہے؟

وظیفے بھی روک دیے گئے

زیادہ تر پاکستانی طلبا چینی حکومت کے وظیفوں پر تعلیم مکمل کرنے چین گئے ہوئے ہیں۔ اب ان کے وظیفے بھی بیجنگ حکومت نے گزشتہ ایک برس سے روک رکھے ہیں۔ ایک پاکستانی طالب علم کو چین کی جانب سے ستر ہزار سے نوے ہزار پاکستانی روپے (تین سو بہتر سے چار سو ترپن امریکی ڈالر) بطور وظیفہ دیا جاتا ہے۔

بیجنگ یونیورسٹی میں داخل ہونے کا ایک دروازہ، اس یونیورسٹی میں ایک سو کے قریب مضامین پڑھائے جاتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Duke

پاکستانی شہر لاہور کی ایک طالبہ حنا فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نے اپنی پاکستان میں ملازمت چھوڑ کر بیجنگ ٹیکنالوجی اور بزنس یونیورسٹی میں اسکالرشپ پر فوڈ سائنسز میں پی ایچ ڈی شروع کر رکھی ہے اور اب وہ پاکستان میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ فاطمہ کے مطابق ایک طرف وہ کوئی نوکری نہیں حاصل کر پا رہی تو دوسری جانب چینی حکومت نے وظیفہ بھی روک دیا ہے، اس طرح اس کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

چین میں چار پاکستانی طلبہ کورونا وائرس سے متاثر

تعلیم نامکمل رہنے پر اضطراب

چین میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبا میں تعلیمی سلسلہ ادھورا رہنے پر شدید اضطرابی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے کئی طالب علموں نے مختلف سطح پر اپنی گہری تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ ندا نواز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ گزشتہ برس اپنی ڈگری کا فرسٹ سمیسٹر مکمل کر کے پاکستانی لوٹی تھیں اور اس کے بعد ابھی تک واپس چین جانے کی کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی۔ ندا نواز کے مطابق اب ان کو پاکستانی یونیورسٹیوں میں بھی داخلہ نہیں مل رہا اور انہیں تعلیم نامکمل رہنے کی پریشانی لاحق ہے۔

ایک پاکستانی سرکاری ملازم نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ وہ دفتر سے طویل رخصت حاصل کر کے انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے چین گئے اور اب وہ اپنا پراجیکٹ مکمل کرنے کی راہ دیکھ رہے ہیں اور اگر سفری پابندیاں یونہی رہی تو وہ مقررہ وقت میں اسے مکمل نہیں کر سکیں گے۔

ایک چینی یونیورسٹی کے طلبا کیفے ٹیریا میں دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/Z. Hong

اندازوں کے مطابق سفری پابندیاں رواں برس ستمبر سے قبل اٹھائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

حکام کا ردعمل بہت سست

ایسے طلبا پاکستانی اور چینی حکام کے رویے پر بھی شاکی دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طالب علم احمد علی کے مطابق اس گھمبیر مسئلے پر بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے نے ایک کھلی میٹنگ کا اہتمام کیا تو ہے لیکن یہ بھی زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئی۔ ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی چینی یونیورسٹی اور پاکستانی حکام کو خط لکھے ہیں لیکن جواب میں صرف اتنا کہا گیا کہ اس معاملے پر غور کیا جا رہا ہے۔

چین: لاکھوں اعلی تعلیم یافتہ نوجوان مناسب روزگار کی تلاش میں

سن 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں ایک سو چھیانوے ملکوں کے چار لاکھ بانوے ہزار سے زائد طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں سے بارہ فیصد کو چین کی جانب سے اسکالر شپ دیا جاتا ہے اور بقیہ خود سے تعلیم کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔

ایس خان (ع ح / ا ا)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں