1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی عدلیہ میں تقسیم کا تاثر: اس تقسیم کی تاریخ کیا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
12 دسمبر 2023

پاکستانی سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالحسن نے اس عدالت میں بینچوں کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے ہیں، جس سے کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید اعلیٰ ترین ملکی عدلیہ کچھ حوالوں سے منقسم ہوتی جا رہی ہے۔

اسلام آباد میں پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارت
اسلام آباد میں پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارتتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

جسٹس اعجازالحسن نے فوجی عدالتوں اور جسٹس مظاہر نقوی کے حوالے سے بننے والے بینچوں پر اعتراضات کیے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے قانونی ماہرین سے پوچھا کہ آیا ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کا تاثر ہے اور آیا اس ممکنہ تقسیم کو محض اختلاف رائے ہی کہا جائے گا اور نہ کہ کوئی بڑی تقسیم؟

حق مہر پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم

اس حوالے سے پاکستانی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ جہاں تک اعتراضات کا تعلق ہے، تو وہ بظاہر مناسب نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، جو پارلیمنٹ نے حال ہی میں پاس کیا، اس کے مطابق تین سینیئر ججوں کی کمیٹی کسی بھی بینچ کی تشکیل کے حوالے سے باہمی مشاورت سے بینچ تشکیل دے گی۔ جسٹس اعجازالحسن کا دعویٰ ہے کہ اس کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ ان دونوں بینچوں میں سینیئر جج ہوں گے۔ تشکیل کے بعد پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہوا۔ بالکل اسی طرح ججوں کی کمیٹی کی میٹنگ کی تفصیلات روسڑ کے بعد جاری کی گئیں۔‘‘

جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ: تنقید بھی، تعریف بھی

جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں عدلیہ میں تقسیم کا تاثر ہے، ''عدلیہ میں پہلی واضح تقسیم اس وقت نظر آئی جب سندھ چیف کورٹ نے جو اب سندھ ہائی کورٹ کہلاتا ہے، مولوی تمیزالدین کے حق میں فیصلہ دیا۔ بعد میں فیڈرل کورٹ جو اب سپریم کورٹ کہلاتی ہے، نے چیف کورٹ کے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا اور غلام محمد کے غاصبانہ اقدام کو صحیح قرار دیا۔‘‘

جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق اس کے علاوہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے حوالے سے بھی فیصلے میں عدلیہ میں تقسیم کا ایک تاثر تو تھا۔

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیرآئینی قرار دے دیا

01:42

This browser does not support the video element.

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر شعیب شاہین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں بھی عدلیہ منقسم ہو گئی تھی اور چیف جسٹس اور ان کے مخالف ججوں کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔ شعیب شاہین کے مطابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے درمیان بھی کشیدگی چلتی رہی، ''ایک حصہ افتخار چوہدری کی اور دوسرا حصہ عبدالحمید ڈوگر کی حمایت کرتا رہا تھا۔‘‘

پاکستان: سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد پر سینیٹرز کا احتجاج

شعیب شاہین کے خیال میں ذاتی مفادات اور حکومتوں کی مداخلت ایسے عوامل میں شامل ہیں، جو عدلیہ میں تقسیم کا سبب بنتے ہیں۔‘‘ ان کے الفاظ میں، ''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 90 کی دہائی میں جب جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا، تو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت جسٹس سجاد علی شاہ کے مخالف ججوں کی حمایت کر رہی تھی، جس سے یہ تقسیم مزید گہری ہو گئی تھی۔‘‘

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی اعلیٰ عدلیہ دو مرتبہ تقسیم ہوئی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افتخار چوہدری کے معاملے سے پہلے جسٹس سعید الزماں صدیقی اور جسٹس ارشاد حسن خان کے درمیان اختلاف ہوا۔ جسٹس صدیقی پرویز مشرف کے پی سی او کے حوالے سے فیصلہ سنانا چاہتے تھے جبکہ جسٹس ارشاد حسن خان ایسا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے ججوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے پی سی او کے مسئلے پر استعفے دے دیے تھے، جن میں جسٹس سعید الزماں صدیقی اور سندھ ہائی کورٹ کے کچھ دوسرے جج شامل تھے جبکہ جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس افتخار چوہدری اور دیگر ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا تھا۔‘‘

نواز شریف کے خلاف عدلیہ نے کوئی سیاست نہیں کی، ثاقب نثار

03:03

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں