پاکستانی عوام اور حکومت کے ساتھ ہیں، جرمن وزیر خارجہ
29 نومبر 2011![گیڈو ویسٹر ویلے](https://static.dw.com/image/15417716_800.webp)
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے نیٹو کی طرف سے پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کے تناظر میں اپنی پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر کو ٹیلیفون کر کے کہا کہ جرمنی پاکستان کے تعاون اور اس کی قربانیوں سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ ویسٹر ویلے نے نیٹو افواج کے حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس واقعے سے سیاسی تعاون کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
دوسری طرف پاکستانی فوج نے کابل حکومت کی طرف سے ایسے دعوؤں کی تردید کی ہے کہ پاکستانی چیک پوسٹ سے نیٹو اور افغان فوج پر پہلے فائرنگ کی گئی، جو نیٹو حملے کی وجہ بنی۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے مطابق دو مختلف چیک پوسٹوں پر پاکستانی فوجی کسی اشتعال انگیزی کے بغیر نیٹو حملے کا نشانہ بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیٹو حملہ قریب دو گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران مقامی کمانڈروں نے نیٹو کمانڈرز کے ساتھ رابطہ کر کے بار بار حملہ روکنے کو کہا، مگر اس کے باوجود یہ حملہ جاری رہا۔
پاکستانی فوجی ترجمان نے اس موقع پر افغانستان کے اس دعوے کی بھی نفی کی کہ افغان اور نیٹو کے فوجیوں پر پہلے فائرنگ کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نیٹو اور افغانستان کی طرف سے اس واقعے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے محض عذر تراشی ہے۔ عباس کا کہنا تھا کہ اگر فائرنگ ہوتی تو اس کے نتیجے میں جانی نقصان بھی ہوتا۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے ہفتے کو ہونے والے اس واقعے میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی پوری تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔ اتحادی فوج کی طرف سےابھی اس واقعے کے بارے میں باقاعدہ طور پر بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم ایک افغان اہلکار نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، دعویٰ کیا تھا کہ افغان اور نیٹو کی مشترکہ افواج پر پاکستانی چیک پوسٹوں کی طرف سے فائرنگ کی گئی تھی، جس کے جواب میں فضائی مدد طلب کی گئی۔
ہفتہ کو علی الصبح ہونے والے حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے نہ صرف امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں واقع شمسی ایئر بیس خالی کر دے بلکہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے امدادی سامان لے جانے والے قافلوں کو بھی روک دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی افواج کے لیے سامان رسد کا زیادہ تر حصہ کراچی پورٹ سے براستہ چمن اور طورخم افغانستان پہنچایا جاتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے اس واقعے سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دو اہم پارٹنرز کے درمیان عدم اعتماد مزید بڑھ سکتا ہے، مگر یہ معاملہ اس قدر نازک نہیں ہے کہ دونوں ممالک آپس کے تعلقات کو ناقابل واپسی موڑ تک لے جائیں۔ واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل نامی تھنک ٹینک کے ایک ماہر شجاع نواز کے بقول: ’’دونوں فریق ایک دوسرے پر بہت حد تک انحصار کرتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اس وقت تک پاکستان کی ضرورت ہے جب تک وہ افغانستان میں جاری اپنا آپریشن ختم نہیں کرتا۔ شجاع نواز کے مطابق دوسری طرف پاکستان ابھی تک امریکہ کی اقتصادی اور فوجی امداد پر انحصار کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق تعلقات میں بہتری کے لیے یہ بات از حد ضروری ہے کہ اس واقعے کے بارے میں فوری اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیئں کہ وہاں کیا ہوا اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک