پاکستانی عوام کن ٹیکوں کو زہر کے ٹیکے سمجھ رہے ہیں؟
24 جون 2020وہ مزید پراعتماد انداز میں بولی، ''باجی کس دنیا میں ہیں، آپ کو کچھ پتا بھی ہے؟‘‘ یہ کہانی مجھے میری ایک صحافی دوست نے سنائی، جس کے مطابق اس کے گھر میں کام کرنے والے ملازمین کا خیال ہے کہ کورونا کا ٹیسٹ کرانے کا مطلب ہے کہ خود کو زہر کے ٹیکے لگوانے کے لیے اور کسی پراسرار بین الاقوامی تاجر کے ہاتھوں اپنے اعضاء بکوانے کے لیے تیار ہو جائیں۔
اب حال سنیے ایک ’’پڑھے لکھے‘‘ گھرانے کا، کہنے لگے کے والد صاحب جب ہسپتال گئے تو طبیعت ایسی بھی خراب نہ تھی، پھر انجیکشن منگوایا اور جیسے ہی انجیکشن لگایا تو والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ بعد ازاں ہم نے معلوم کیا تو پتا چلا کے انجیکشن کا نام ''ایکٹیمرا‘‘ ہے۔
کویت میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر کاشف رضوی، جو کے یوکے کنسلٹنٹ فیزیشن ہیں اور اس وقت پاکستان میں بہت سے مریضوں کی آن لائن کنسلٹینسی بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کو یہ بات سمجھانا مشکل ہے کے جو انجیکشن دیا جا رہا ہے وہ زہر کا نہیں۔ ان کے مطابق اصل بات یہ ہے کے زہر کے انجیکشن کی سوچ کی بنیادی وجہ مریض کے گھر والوں میں خوف اور ناسمجھی ہے۔
میں نے مزید پوچھا تو انہوں نے ایک تفصیلی پیغام کے ذریعے اس کی بنیادی وجہ طب کی زبان میں سمجھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس پازیٹیو آنے کے بعد اکثر مریضوں میں پانچ دن تک معتدل علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ مریض کے جسم میں وائرس سے لڑنے کے لئے قوت مدافعت کی جنگ جاری ہو جاتی ہے جسے ’’سی آر ایس‘‘یا سیٹو کلائن ریلیز سینڈروم کہا جاتا ہے۔ اس کے باعث مریض کو سانس لینے میں دقت اور پھیپھڑوں پر بھاری پن محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس مرحلے کے دوران مریض کے جسم کے مختلف اعضاء میں خون کے کلوٹس بننا، دل اور خاص کر پھیپھڑوں پر اثر ہونا جبکہ مریض کے جسم میں آکسیجن کی کمی واقع ہونے لگتی ہے۔
بیواؤں کا عالمی دن اور معاشرے کا فرسودہ رویہ
چونکہ یہ اثرات فوری نمایاں نہیں ہوتے لہذا مریض اس بات کو سمجھ نہیں پاتا۔ ایسے میں اگر مریض کا آکسیجن سیچوریشن لیول کا معائنہ کیا جائے تو وہ جسم کی ضروری مقدار سے کافی کم ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کے اثرات دماغ پر فوری نمایاں نہیں ہوتے اور مریض بظاہر ہلکا پھلکا بیمار نظر آتا ہے، اس لیے گھر والوں کو لگتا ہے کے ہمارا مریض بالکل ٹھیک تھا، ڈاکٹروں نے مار دیا۔
اس موقع پر جب ڈاکٹر مریض کا معائنہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کے وائرس اور قوت مدافعت کی اس جنگ میں اعضاء بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے میں ڈاکٹر اسٹیرؤڈ کے انجیکشن یا مونوکلونل اینٹی باڈی ڈرگ انجیکشن جیسے ایکٹیمرا بھی کہا جاتا ہے، اس کی ایک ہیوی ڈوز دیتے ہیں۔ یہ انجیکشن دینے کہ بعد کچھ مریض تو ٹھیک ہو جاتے لیکن ایک بڑی تعداد یا دو تہائی مریضوں کے دل اور دوسرے اعضا پر اس کا اثر ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی ’حلال خود کشیاں‘
اس وجہ سے اکثر وہ مریض، جن کا دل کمزور ہو یا عمر زیادہ ہو اس اسٹیرؤڈ انجیکشن کو برداشت نہیں کر پاتے۔ اور ظاہر ہے چونکہ گھر والے مریض کو جس وقت ہسپتال لاتے ہیں تو ظاہری طور پر مریض ٹھیک ہوتا ہے، لہذا ایک بڑی تعداد یا تو مریض کی موت کا ذمہ دار ڈاکٹر کو ٹھہراتی ہے یا کچھ نا سمجھ افراد اس کو زہر کہ انجیکشن کا نام دے دیتے ہیں۔
ہمارے ہم وطنوں کی اندر ایک خاصیت کہانی بنانے کی بھی ہے، لہذا زہر کے انجیکشن والی بات کے ساتھ ڈاکٹروں کا پراسرار اعضاء بیچنے کا کاروبار بھی اس کہانی کے پلاٹ کو مضبوط کرنے کے لیے شامل کیا گیا۔ بحرحال کرونا وائرس اب ہر طرف پھیل رہا ہے تو امید ہے کہ شاید اہل وطن ہوش کے ناخن لیں ورنہ عالم تو کچھ یوں ہو گا کہ سانس لینے کے لیے آکسیجن اور مرنے کے لیے زہر کا انجیکشن بھی درکار نہ ہو گا۔
آج ایک دوست کا کورونا وائرس کا رزلٹ مثبت آیا تو اس کی ڈاکٹر والدہ نے کہا کے سمجھنے کی بات ہے کہ بچے تو ہمارے بھی اس وباء کی لپیٹ میں ہیں، ڈاکٹر نہ تو لاشیں بیچ رہے ہیں اور نا ہی کوئی اعضاء۔