پاکستانی فوجی کیمپ پر حملے میں آٹھ سکیورٹی اہلکار ہلاک
9 جولائی 2012اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق گجرات پولیس کے سربراہ بشارت محمود نے بتایا کہ متعدد نامعلوم حملہ آوروں نے یہ کارروائی آج صبح سویرے کی۔ حملے کے وقت اسی شہر میں زیادہ تر اسلام پسندوں پر مشتمل وہ ہزاروں مظاہرین بھی شب بسری کے لیے رکے ہوئے تھے جو نیٹو سپلائی روٹ کھولے جانے کے خلاف لانگ مارچ کے سلسلے میں کل اتوار کو لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
مقامی وقت کے مطابق پیر کی دوپہر تک لانگ مارچ کے یہ ہزاروں شرکاء گجرات سے روانگی کے بعد ابھی راستے میں تھے اور انہیں پروگرام کے مطابق شام تک اسلام آباد پہنچا تھا۔ گجرات میں مقامی انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکاروں نے بتایا کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا ایک عارضی فوجی کیمپ پر خونریز حملے کا اس لانگ امرچ کے شرکاء سے کوئی تعلق ہے۔ گجرات پولیس کے سربراہ بشارت محمود کے مطابق یہ حملہ واضح طور پر ایک دہشت گردانہ حملہ ہے تاہم یہ بات غیر واضح ہے کہ اس حملے کے ذمہ دار عناصر کون ہیں۔
خبر ایجنسی اے پی کے مطابق صبح پانچ بج کر بیس منٹ پر کیے گئے اس حملے میں ایک گاڑی اور چند موٹر سائیکلوں پر سوار آدھی درجن کے قریب مسلح حملہ آور گجرات میں اس فوجی کیمپ تک پہنچے۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی۔
اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں سات فوجی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والا آٹھواں اہلکار ایک پولیس مین تھا جس نے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے حملہ آوروں کو پکڑنا چاہا مگر ان کی فائرنگ سے خود بھی جاں بحق ہو گیا۔
بشارت محمود کے بقول اس حملے میں چار پولیس اہلکار اور تین فوجی زخمی بھی ہوئے۔ انہوں نے خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ممکنہ طور پر اس کارروائی کے بعد حملہ آور دفاع پاکستان اتحاد کے اہتمام کردہ لانگ مارچ کے شرکاء کی شہر میں بہت بڑی تعداد میں موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کامیابی سے فرار ہو گئے یا فوری طور پر انہی میں گم ہو گئے۔
خبر ایجنسی روئٹرز نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ نامعلوم عسکریت پسندوں نے جس فوجی کیمپ پر حملہ کیا وہ پاکستان آرمی کے ایک میجر کی لاش کی تلاش کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق یہ آرمی میجر ایک ہیلی کاپٹر اڑا رہا تھا جو قبل ازیں اسی علاقے میں ایک دریا میں گر گیا تھا۔
اس حملے کے بارے میں روئٹرز نے اسلام آباد سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی دستوں پر ایسے حملے زیادہ تر شمال مغربی پاکستان میں کیے جاتے ہیں جہاں طالبان عسکریت پسند کافی سرگرم ہیں۔ ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس علاقے میں عام طور پر سکیورٹی اداروں کے ارکان پر ایسے حملے نہیں کیے جاتے۔
اس اہلکار نے بتایا، ’گجرات اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں جرائم پیشہ گروہ بھی فعال ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ انہی جرائم پیشہ گروپوں میں سے کسی کی کارروائی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حملہ عسکریت پسندوں نے ہی کیا ہو۔ ہم فوری طور پر کسی بھی بات کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے‘۔
ij / mm / Reuters, ap