دانیال سن 2005 میں پاکستانی فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوا تھا۔ کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے دانیال کا کہنا ہے کہ طالبان کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد پاراچنار میں اسے اور اس کے خاندان کو شدید خطرات لاحق تھے۔
اشتہار
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے اس سابق سپاہی نے بتایا کہ سن 2007 میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد خاص طور پر قبائلی ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ملکی سپاہیوں کی جانوں کو شدید خطرات لاحق تھے۔
دانیال نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ ان دنوں اس کے لیے پاراچنار میں اپنے اہل خانہ سے ملنا اور گھر آنا جانا بھی انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسی ٹل کے قریب ایف سی دستوں کے کارواں پر شدت پسندوں کے ایک حملے میں وہ بھی شدید زخمی ہو گیا تھا۔ ’’اچانک حملہ ہوا، مجھے محسوس ہوا کہ میں بھی زخمی ہوا ہوں، پھر میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں ٹل کے ایک ہسپتال میں موجود تھا، جہاں میرا علاج کیا جا رہا تھا۔‘‘
دانیال کے مطابق اس کا ایک اور بھائی بھی فوج میں تھا۔ صحت یاب ہونے کے بعد اس نے اپنے اہل خانہ کے مشورے سے فوج اور پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ عرصے بعد وہ پاکستان سے ایران چلا گیا، جہاں وہ غیر قانونی طور پر کئی برس مقیم رہا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال نے ایران میں اپنے قیام کے حوالے سے بتایا، ’’غیر قانونی تارک وطن ہونے کے باعث وہاں زندگی بہت مشکل تھی۔ ایرانی حکام نے مجھے دو مرتبہ گرفتار کر کے چمن بارڈر پر پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا تھا۔ لیکن میں دونوں مرتبہ ایجنٹوں کی مدد سے واپس ایران پہنچنے میں کامیاب رہا تھا۔‘‘
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
ایران میں اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر سن 2013 میں دانیال نے یورپ کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جرمنی پہنچنے میں اسے مزید دو سال لگے۔ دانیال نے ڈی ڈبلیو کو اپنے اس سفر کے بارے میں بتایا، ’’میں 2013ء میں ترکی چلا گیا، کچھ ماہ وہاں رکنے کے بعد میں یونان پہنچا۔ یونان سے مغربی یورپ جانے کے لیے میں نے ایک ایجنٹ کی مدد حاصل کی۔ لیکن اس نے مجھے مقدونیا پہنچا کر یرغمالی بنا لیا تھا۔‘‘
دانیال کے بقول اس نے مقدونیا میں انسانوں کے اسمگلروں کی قید میں نو ماہ سے زائد کا عرصہ گزارا۔ ’’وہ مجھے مارتے پیٹتے تھے اور کہتے تھے کہ میں اپنے گھر والوں سے رابطہ کر کے تاوان کی رقم کا بندوبست کروں۔ لیکن نہ تو میرے پاس پیسے تھے اور نہ ہی میرے گھر والوں کے پاس۔ آخر کار میں ان کی قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔‘‘
جرمنی آمد اور زندگی
دانیال مئی سن 2015 میں جرمنی پہنچا تھا، جہاں اس نے حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا دی تھی۔ تب سے اب تک وہ جرمنی کے علاقے بالائی پلاٹینیٹ کے شہر ’نوئے مارکٹ‘ میں قائم مہاجرین کے ایک کیمپ میں رہ رہا ہے۔
گزشتہ برس جرمن دفتر بی اے ایم ایف نے اس کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ جس کے بعد سے اس نے اس فیصلے کے خلاف ایک اپیل دائر کر رکھی ہے۔ دانیال نے ڈی ڈبلیو کو یہ بھی بتایا کہ اسی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے تین دیگر سابق پاکستانی فوجی بھی سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے ہوئے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ان میں سے دو کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے جرمنی میں پناہ دی بھی جا چکی ہے۔
'شدت پسندوں کے حملے میں بھائی اور بھتیجا بھی ہلاک‘
پاکستانی فوج کے اس سابق سپاہی کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس رمضان کے مہینے میں پاراچنار میں ہونے والے ایک دہشت گردانہ حملے میں اس کا ایک بھائی اور ایک بھتیجا ہلاک جب کہ ایک بھانجا شدید زخمی ہو گیا تھا۔ اس نے شکوہ کیا کہ پاراچنار میں امن و امان کی بدتر صورت حال کے باوجود حکام علاقے میں قیام امن پر بہت کم توجہ دے رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال کا کہنا تھا، ’’پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتی تو میں نہ کبھی فوج کی نوکری چھوڑتا، نہ ہی اپنا وطن اور نہ ہی کبھی جرمنی آتا۔‘‘
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔