پاکستانی فوج سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے مطالبات
30 دسمبر 2013جنرل مشرف نے اتوار 29 دسمبر کو ایک فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایسی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن کے مطابق اس معاملے پر پوری فوج ان کے ساتھ ہے۔
پر ویز مشرف کے اس انٹرویو پر بعض حلقوں نے فوجی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ جنرل مشرف کی جانب سے بڑا دعوٰی کیا گیا ہے، اس پر فوج کی جانب سے بیان آنا چاہیے تھا۔یہ خاموشی نیم رضا مندی ہے۔
تاہم ابھی تک فوج کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ البتہ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے پیر کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کو جو کچہ کہنا ہے عدالت میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین اور قانون نے جنرل مشرف کو بہترین موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنا جو بھی مؤقف بیان کرنا چاہیں عدالت کے سامنے جاکر بیان کریں۔ پرویز رشید کا مزید کہنا تھا، ’’ہم ان کو 14 سال سنتے رہے، اس وقت بھی سنا جب وہ ہاتھ میں پستول لے کر اور مکے لہرا لہرا کر بات کرتے تھے۔اب ہم چاہیں گے کہ انہیں عدالت میں سنیں۔ تاریخ کی عدالت نے ان کے بارے مین فیصلہ کر دیا اب انہیں قا نون کی عدالت میں جا کر بات کرنی چاہیے۔‘‘
جنرل مشرف کے بیان اور اس پر فوج کی خاموشی سے سول ملٹری تعلقات کے بارے میں بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ سینئیر صحافی اور تجزیہ کار رانا قیصر کا کہنا ہے کہ فوج کا رد عمل سامنے آنے تک اس بارے میں قیاس آرائیاں کرنا درست نہیں ہوگا۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے بیان کے سیاق و سباق کو سمھجنے کی ضرورت ہے: ’’ایک آرمی چیف جب فیصلہ لیتا ہے اور کوئی اقدام کرتا ہے تو یقیناﹰ پھر وہ ادارہ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ وہ ادارہ (فوج) کس حد تک اپنی غیر جانبداری کو قائم رکھتا ہے۔‘‘
ماہر قانون جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ اس موقع پر فوج کی جانب سے کسی بھی قسم کے وضاحتی بیان کے مزید مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کےانٹر ویو کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہپیں۔جسٹس (ر) طارق محمود کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا: ’’اگر وہ (فوج) انکار بھی کریں تو تب بھی اس میں ملوث ہو جائیں گے تو میرا خیال ہےکہ ایک مقدمہ عدالت میں زیر التواء ہے تو دوسرے ادارے کو بھی چاہیے وہ خاموش رہے۔کیونکہ ظاہر ہے پر ویز مشرف اس وقت ایک ایسے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں جس کے سنجیدہ نتائج بھی ہو سکتے ہیں، تو پریشانی کے عالم میں کوئی ایسی بات کہہ دی ہے تو میرے خیال میں نظر انداز کر دینی چاہیے۔‘‘
جنرل مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں غداری کے مقدمے کی ایک سماعت ہو چکی ہے۔ جنرل مشرف سکیورٹی خدشات کی بناء پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے۔ آئندہ سماعت پر جو یکم جنوری کو طے ہے، ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔