پاکستانی فوج مداخلت کرے، کشمیری عسکریت پسند رہنما کا مطالبہ
2 ستمبر 2019
ایک کشمیری عسکریت پسند رہنما نے پاکستان سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے مشروط طور پر کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عوام کے تحفظ کے لیے اپنے دستے وہاں بھیجنا چاہییں۔
اشتہار
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں مظفر آباد سے ملنے والی رپورٹوں میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ اس کشمیری عسکریت پسند رہنما نے کہا کہ نئی دہلی میں نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو کیے گئے فیصلے کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد اقوام متحدہ کو اب وہاں اپنے امن دستے بھیجنا چاہییں۔ تاہم اگر عالمی ادارہ ایسا نہیں کرتا، تو اسلام آباد کو اپنے فوجی دستے اس لیے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھیج دینا چاہییں کہ وہ وہاں مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کر سکیں۔
اس کشمیری عسکریت پسند رہنما کا نام سید صلاح الدین ہے، جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف سرگرم ایک درجن سے زائد مسلح گروپوں کے اتحاد کے سربراہ بھی ہیں۔ سید صلاح الدین نے کہا، ''یہ پاکستان کی مسلح افواج کا فرض بنتا ہے، جو کہ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست ہے جو ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہو کر وہاں کے عوام کی عسکری سطح پر مدد کریں۔‘‘
مطالبہ عمران خان پر داخلی دباؤ کا عکاس
اس بارے میں روئٹرز نے اپنے ایک مراسلے میں لکھا ہے کہ سید صلاح الدین کا یہ مطالبہ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پر اس داخلی دباؤ کی عکاسی بھی کرتا ہے، جس کے تحت یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد کو نئی دہلی حکومت کے پانچ اگست کے اقدام کے بعد اپنے طور پر کشمیر سے متعلق فیصلہ کن قدم اٹھانا چاہییں۔
اس دباؤ کے برعکس عمران خان حکومت مودی حکومت کے کشمیر سے متعلق فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اب تک عالمی سطح پر صرف ایک وسیع تر سفارتی مہم پر ہی اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
'صرف سفارتی کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہوں گی‘
اس پس منظر میں سید صلاح الدین نے پاکستان کے زیر انتظام جمو کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں سینکڑوں افراد کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اتوار یکم ستمبر کے روز کہا، ''آج کے بہت مشکل حالات میں، (کشمیر سے متعلق) صرف سفارتی کوششیں اور سیاسی تائید و حمایت ہی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گی۔‘‘
بھارت میں مودی حکومت نے پانچ اگست کے اپنے بہت متنازعہ ہو جانے والے فیصلے کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس منقسم ریاست کے بھارت کے زیر انتظام حصے کو آئندہ مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ ان میں سے ایک لداخ ہو گا اور دوسرا جموں اور کشمیر۔ مزید یہ کہ آئندہ ان دونوں نئے علاقوں کی حیثیت بھارت کے یونین علاقوں کی ہو گی۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
فیصلے کا نفاذ اکتیس اکتوبر سے
جب سے نئی دہلی نے جموں کشمیر سے متعلق اپنا یہ متنازعہ فیصلہ کیا ہے، تب سے کشمیر میں مسلسل ایک سکیورٹی لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے اور اس خطے کا باقی ماندہ دنیا سے مواصلاتی رابطہ بھی زیادہ تر کٹا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی حکومت کشمیر میں نہ رہنے والے بھارتی شہریوں کو یہ حق دینے کا اعلان بھی کر چکی ہے کہ آئندہ وہ کشمیر میں املاک بھی خرید سکیں گے۔ اب تک ایسا کرنا قانونی طور پر ممنوع تھا۔
مودی حکومت نے نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر سے متعلق اپنا گزشتہ ماہ کے فیصلے پر ابھی تک عمل درآمد شروع نہیں کیا۔ حکومتی منصوبے کے مطابق یہ عمل درآمد 31 اکتوبر سے شروع ہو گا اور تب نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کی بھارتی آئین کے تحت خصوصی حیثیت عملی طور پر ختم ہو جائے گی۔
م م / ا ا / روئٹرز
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔