1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج کا تمسخر اڑانے کے خلاف قانونی بل،کئی حلقے مخالف

عبدالستار، اسلام آباد
8 اپریل 2021

انسانی حقوق کی کئی تنظیموں اور سیاست دانوں نے اس حکومتی مسودہ قانون کی مخالفت کی ہے، جس کے تحت پاکستانی فوج کا تمسخر اڑانے، اسے بدنام کرنے یا اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے پر مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

دائیں: پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ، بائیں: اسلام آباد میں پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارتتصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem/SS Mirza

اسلام آباد میں پاکستانی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے کل بدھ سات اپریل کو اس قانونی بل کی منظوری دے دی، جس کے تحت اگر کوئی شخص جان بوجھ کر پاکستان آرمی کے ارکان کا تمسخر اڑائے، انہیں بدنام کرے یا ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائے، تو اسے کم از کم دو سال کی سزائے قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی سنائی جا سکتی ہیں۔

یوم پاکستان کی مناسبت سے فوجی پریڈ، تعریف بھی جاری اور تنقید بھی

اس پارلیمانی کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان نے اس بل کی مخالفت کی جبکہ حکمران پی ٹی آئی کے ارکان نے اس مسودے کی حمایت میں ووٹ دیا۔

بل کا مقصد

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف ملک دشمن عناصر کا پروپیگنڈا تیز ہو گیا ہے اور اس پروپیگنڈے کو روکنا بہت ضروری ہے کیونکہ فوج کو کمزور کرنے کا مطلب ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے۔  رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ اس پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے قانون لانا ضروری ہے۔

یکجہتی دکھانی ہے تو کشمیر سے فوجیں نکالیں، کشمیری تنظیمیں

مجوزہ قانون کے تحت پاکستانی آرمڈ فورسز کے ارکان کا دانستہ تمسخر اڑائے، انہیں بدنام کرنے یا ساکھ کو نقصان پہنچانے پر قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں سنائی جا سکیں گیتصویر: picture-alliance/AA/ISPR

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''کچھ عرصے سے پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف بہت گھناؤنی سازش کی جا رہی ہے اور ان کو ہر سطح پر بدنام کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے افسران پر بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ایسا کرنے والے عناصر نا صرف فوج کو بدنام کر رہے ہیں بلکہ وہ پاکستان کے استحکام کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے، جو کسی بھی بیرونی جارحیت کو روک بھی سکتا ہے اور ملک کو متحد بھی رکھ سکتا ہے۔ اس لیے ہم یہ قانون لے کر آ رہے ہیں تاکہ جو کوئی بھی فوج کے خلاف سازش کرے، اسے سزا دلوائی جا سکے۔‘‘

بھارت کسی جعلی حملے کی حماقت سے باز رہے، عمران خان

محمد اقبال خان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف جلد ہی ملکی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اس قانونی بل کو منظور کرا لے گی۔

زباں بندی کی کوشش

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس مجوزہ بل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کرے گا۔ کمیشن کے نائب چیئر پرسن اسد بٹ کے مطابق یہ بل نا صرف بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ یہ آئین میں دی گئی آزادیوں کے بھی خلاف ہیں۔

آئی جی سندھ کے معاملے میں ملوث آئی ایس آئی اہلکار معطل، آئی ایس پی آر

’فوج چاہتی ہے کہ اس پر تنقید نا کی جائے، تو وہ جنرل پرویز مشرف (تصویر) اور دیگر آئین شکن شخصیات کی حمایت نا کرے،‘ عثمان کاکڑتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کا آئین ہر شہری کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہر ادارے پر تنقید کر سکے۔ لیکن یہ بل آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور فوج کو ایک 'مقدس گائے‘ بنانے کی کوشش ہے۔‘‘

نواز شریف خود فوج کے ذریعے ہی اقتدار تک پہنچے، عمران خان

اسد بٹ کا مزید کہنا تھا کہ جب عدالتی فیصلوں پر تنقید ہو سکتی ہے، وزیر اعظم اور وزراء پر تنقید ہو سکتی ہے، تو فوج پر تنقید کیوں نہیں ہو سکتی، ''میرا خیال ہے کہ اس بل کو سیاسی مخالفت کو کچلنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا اور فوج کے ناقدین کو بھی نشانہ بنایا جائے گا، جو ملک میں جمہوریت کے لیے کوئی مثبت پیش رفت بالکل نہیں۔ یہ بل آئین سے متصادم ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں کو اس کی بھرپور مخالفت کرنا چاہیے ورنہ ایسی کوئی قانون سازی ملک کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوگی۔‘‘

سیاست میں مداخلت

پاکستان کے کئی سیاست دان بھی اس مجوزہ بل کی مختلف شقوں پر بہت ناخوش ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کے مطابق اگر ملکی فوج آئین توڑے گی، انتخابات میں دھاندلی کرائے گی، سیاست میں مداخلت کرے گی، کاروبار کرے گی اور سویلین اداروں میں خدمات انجام دے گی، تو اس پر تنقید بھی ہو گی۔

جنرل باجوہ صاحب آپ کو جواب دینا پڑے گا، نواز شریف

’پاکستانی سیاسی سیب اور عسکری مالٹے‘

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر فوج چاہتی ہے کہ اس پر تنقید نا کی جائے، تو وہ ان عناصر کی پشت پناہی نا کرے، جنہوں نے آئین توڑا ہے۔ جنرل مشرف اور دوسری آئین شکن شخصیات کی حمایت نا کریں اور اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ آئین نے اس فوج کے احترام کے لیے کہا ہے، جو اپنی آئینی حدود میں رہتی ہے۔ جو مارشل لاء نافذ نہیں کرتی، جو آئین نہیں توڑتی، ملک میں آمریت مسلط نہیں کرتی اور سیاست میں مداخلت نہیں کرتی۔ اگر فوج یہ سارے کام کرے گی، تو اس کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ لہٰذا فوج سمیت تمام اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہیں۔‘‘

عثمان کاکڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی پارٹی پارلیمان میں تو نہیں ہے لیکن وہ سیاسی جلسے جلوسوں میں اس قانونی بل کی بھرپور مخالفت کرے گی۔

عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کے مبینہ اثاثے، رپورٹ اور ردِ عمل

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اس مسودہ قانون کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرا لینا بہت مشکل ہو گا کیوں کہ سینیٹ میں حزب اختلاف کی اکثریت ہے اور اگر اپوزیشن نے متحد ہو کر اس بل کی مخالفت کی، تو بہت کم امکان ہے کہ یہ بل سینیٹ میں منظور ہو جائے۔ کئی سیاسی مبصرین کے مطابق اگر قومی اسمبلی میں بھی حزب اختلاف درست حکمت عملی اختیار کرے، تو وہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے اور یوں پارلیمانی ایوان زیریں میں بھی اس بل کی منظوری مشکل ہو سکتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں