پاکستانی فوج کا جسٹس صدیقی کے الزامات کی چھان بین کا مطالبہ
22 جولائی 2018
پاکستانی فوج نے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے ملکی فوج کے طاقت ور انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی پر عائد کردہ اعلیٰ عدلیہ پر اثر انداز ہونے سے متعلق الزامات کی چھان بین کرائی جائے۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے اتوار بائیس جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی سپریم کورٹ کی طرف سے بھی یہ کہہ دیا گیا ہے کہ وہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے ملکی انٹیلیجنس پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لے رہی ہے۔
جسٹس صدیقی نے پہلے یہ الزامات جزوی طور پر ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے گئے ایک کومنٹ کی صورت میں لگائے تھے۔ بعد ازاں ایک بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب میں جسٹس صدیقی نے اسی ہفتے تفصیل سے یہ کہا تھا کہ کس طرح، ان کے بقول، آئی ایس آئی مبینہ طور پر عدالتی کارروائیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Farmer
26 تصاویر1 | 26
پاکستان میں پچیس جولائی یعنی آئندہ ہفتے بدھ کے روز عام انتخابات ہو رہے ہیں اور ملک میں کئی سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ الزامات عام ہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف مبینہ طور پر فوج کے ذریعے عدلیہ پر اثر انداز ہوتے ہوئے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ ن دوبارہ اسلام آباد میں وفاقی حکومت نہ بنا سکے۔ کئی ماہرین اس مبینہ عمل کو ’قبل از انتخابات دھاندلی‘ کا نام بھی دے رہے ہیں۔
اس تناظر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وکلاء کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ملکی فوج کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ جسٹس صدیقی کے الفاظ میں، ’’آئی ایس آئی پوری طرح عدالتی کارروائیوں کو اپنی منشا کے مطابق بنوانے کی کوشش میں ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آئی ایس آئی کی طرف سے اعلیٰ عدالت کو کہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز، جو دونوں اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں، پچیس جولائی کے الیکشن سے قبل جیل سے رہا نہیں کیے جانا چاہییں۔
اس پس منظر میں کہ پاکستان میں ملکی تاریخ کے سات عشروں میں سے قریب نصف مدت تک اقتدار پر قابض رہنے والی فوج پر تنقید اور وہ بھی حکومت یا عدلیہ کے کسی بہت اہم اہلکار کی طرف سے، بہت ہی کم نظر آتی ہے، فوج نے جسٹس صدیقی کے بیان پر فوراﹰ اور بھرپور ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
کراچی کا انتخابی معرکہ
کراچی پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن یہ شہر آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
انتخابی مہم زوروں پر
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں چند دن باقی ہیں۔ کراچی میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
مصطفیٰ کمال
مصطفیٰ کمال پاک سر زمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے کراچی کے حلقہ این اے 243 سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
پاک سر زمین
مصطفیٰ کمال کی رائے میں ان کی سیاسی جماعت کو کراچی میں پیپلز پارٹی سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
مصطفیٰ کمال کی انتخابی مہم
مصطفیٰ کمال کراچی میں انتخابی مہم کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
فاروق ستار
کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا، ’’پاکستان میں نئی حکومت بنانے کے لیے اگر پاکستان تحریک انصاف یا مسلم لیگ نون کو ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کی ضرورت پڑی، تو وہ ڈیل قبول کر لیں گے۔‘‘
تصویر: DW/U. Fatima
ایم کیو ایم پاکستان
فاروق ستار کا کہنا ہے کہ نئے صوبوں کے ساتھ، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بلدیاتی اختیارات میں خود مختاری نہایت ضروری ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
پاکستان تحریک انصاف
عمران خان کی سیاسی جماعت بھی کراچی میں اپنے قدم جمانے کی بھر پور کوشش میں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا لیاری پہنچنے پر مقامی افراد نے پرتپاک استقبال کیا۔
تصویر: DW/U. Fatima
لیاری
عمران خان نے ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھے جانے والے ضلع وسطی کے مختلف حلقوں میں انتخابی دفاتر کا افتتاح کیا۔ ان علاقوں میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے متعدد وعدے کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ پولیس کا حال یہ ہے کہ امن کے لیے رینجرز کو لانا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
شہباز شریف
کراچی میں انتخابی مہم میں شہباز شریف بھی پیچھے نہیں ہیں۔ شہباز شریف نے کراچی دورے کے دوران کہا کہ وہ اس شہر کی تقدیر بدل دیں گے۔
تصویر: DW/U. Fatima
جبران ناصر
جبران ناصر کراچی کے حلقہ پی ایس 111 اور این اے 247 کی نشستوں سے آزاد حیثیت میں کھڑے ہونے والے امیدوار ہیں۔ وہ اپنی روشن خیالی کے باعث نوجوان نسل میں کافی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: privat
پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی قیادت میں پر امید ہے کہ وہ کراچی میں زیادہ نشستیں جیتے گی۔
تصویر: DW/U. Fatima
مذہبی جماعتیں
مذہبی جماعتیں بھی کراچی کے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں
تصویر: DW/U. Fatima
12 تصاویر1 | 12
اس بارے میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’ریاستی اداروں کے وقار اور ان کے قابل اعتماد رہنے کے تحفط کے لیے ملکی سپریم کورٹ سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس مناسب کارروائی کا آغاز کرے، جس کے ذریعے (فوج پر) لگائے گئے الزامات کی چھان بین کرتے ہوئے ضروری ایکشن لیے جا سکیں۔‘‘
آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ اس بیان سے قبل ہی سپریم کورٹ کے ریلیز کردہ ایک بیان میں بھی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ ’جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا سختی سے نوٹس لیا گیا ہے۔‘‘
جسٹس صدیقی کے بارے میں یہ بات اہم ہے کہ ان کے خلاف غلط سرکاری رویے کے حوالے سے پہلے ہی چھان بین جاری ہے۔ ان کے خلاف یہ الزامات ان کی سرکاری رہائش گاہ کی الاٹمنٹ اور اس کی تزئین و آرائش سے متعلق ہیں۔ خود جسٹس صدیقی اس سلسلے میں اپنے خلاف جملہ الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
م م / ص ح / روئٹرز
لاہور میں انتخابی مہم کے رنگ اور گہما گہمی
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں اب صرف دو ہی روز باقی ہیں۔ جیسے جیسے پچیس جولائی کا دن قریب آ رہا ہے، ملک بھر میں انتخابی مہم میں بھی تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ اس حوالے سے زندہ دلان ِ لاہور بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
نرالا انداز
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی تصویر سائیکل پر اٹھا کر گلی گلی گھومنے والے ان بزرگ کا انداز بھی نرالا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
خواتین بھی آگے آگے
لاہور میں جاری انتخابی مہم میں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
قائد کے بغیر انتخابی مہم
اس تصویر میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کے کارکنان کو انتخابی مہم میں مشغول دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جیل میں ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
پی ٹی آئی کا جوش
پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت سمجھی جانے والی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کا جوش و خروش بھی دیدنی ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ڈیجیٹل اسکرینیں
لاہور میں پہلی مرتبہ انتخابی امیدواران اپنی تشہیر کے لیے ڈیجیٹل اسکرینیں بھی استعمال کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جھنڈوں والی مصنوعات
لاہور کی مارکیٹوں میں سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں والی مصنوعات بھی فروخت ہو رہی ہیں۔ اس تصویر میں پی ٹی آئی کے جھنڈے والے رنگوں پر مشتمل موبائل کور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
آٹھ ہزار کیمرے
لاہور پولیس آٹھ ہزار کیمروں کی مدد سے شہر میں جاری انتخابی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
شہر میں گہما گہمی
شہر میں اوور ہیڈ کراسنگز، پلوں، کھمبوں اور عمارتوں کو بھی انتخابی بینروں نے ڈھک دیا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ہر طرف بینر ہی بینر
لاہور شہر کی گلیوں اور بازاروں میں بینروں کی بہار ہے۔ پہلے یہ بینر کارکن لگایا کرتے تھے لیکن اب یہ کام کمرشل کمپنیاں کرتی ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
انکوائری کرائیں
پی ٹی آئی کے کارکنان کی تیاریاں بھی زوروں پر ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے انتخابی اخراجات کی انکوائری کرائی جائے۔