1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج کی مدد سے کرنسی کی بلیک مارکیٹ کے خلاف کریک ڈاؤن

14 ستمبر 2023

پاکستان میں غیر قانونی فارن ایکسچینج ٹریڈرز کے خلاف ماضی میں بھی کریک ڈاؤن ہو چکا ہے لیکن یہ مافیا کچھ دن روپوش رہنے کے بعد پھر فعال ہو جاتا ہے۔ کیا اس بار کے آپریشن کے نتائج دور رس ثابت ہوں گے؟

Symbolbild I Pakistan China
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance

کراچی، پشاور اور دیگر شہروں میں فعال غیر قانونی فارن ایکسچینج ٹریڈرز کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے۔ کچھ کرنسی مارکیٹوں پر مارے گئے چھاپوں میں تو فوجی دستے بھی شامل تھے۔

پشاور، کراچی اور دیگر پاکستانی شہروں میں غیر لائسنس یافتہ کرنسی چینجرز کے خلاف کریک ڈاؤن نے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پا لیا ہے۔ اس کریک ڈاؤن کے شروع ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی پاکستان کے اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ نئے ریٹ کے مطابق ایک ڈالر 298 روپے کا ہو گیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے کچھ منی چینچرز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ان چھاپوں سے قبل ہی غیر لائسنس یافتہ کرنسی چینجرز کو خبردار کر دیا گیا تھا، اس لیے اس غیر قانونی کام میں ملوث زیادہ تر بااثر لوگ اپنی دوکانیں بند کر کے پہلے ہی روپوش ہو گئے تھے۔

ایسا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کچھ دنوں بعد روپوش ہو جانے والے غیر لائسنس یافتہ کرنسی چینجرز دوبارہ فعال ہو سکتے ہیں۔

تصویر: Rizwan Tabassum/AFP

واضح رہے کہ حکومت اس طرح کا کریک ڈاؤن ماضی میں بھی کر چکی ہے۔ تاہم ایسے کریک ڈاؤنز کے کچھ دنوں بعد منی چینجنگ کا غیر قانونی کام کرنے والے دوبارہ بلیک مارکیٹ میں آن وارد ہوتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کے مطابق قبل ازیں ایسے لوگ بہت کم تھے، جو منی چینج کے لیے قانونی طریقے استعمال کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ کام قانونی طور پر نہیں کیا جائے گا تو اس کا نقصان حکومت کو ہی ہو گا اور ڈالر کی قیمت زیادہ ہو گی جبکہ روپے کی قدر کم۔

بوستان نے کہا، ''ہمارے پاس گاہک آ ہی نہیں رہے تھے۔ نوے فیصد صارفین بلیک مارکیٹ میں فعال ڈیلرز سے رابطے میں تھے۔‘‘ انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر گزشتہ ہفتے پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر سے درخواست کی تھی کہ اس غیر قانونی کام میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ملک بوستان کے بقول آرمی چیف نے اس بات کا نوٹس لیا اور اس کامیابی کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔

 بالخصوص عالمی مالیاتی ادارے کے تین بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تناظر میں پاکستانی حکومت کی طرف سے اوپن مارکیٹ کو کنٹرول کرنا انتہائی اہم ہے۔ روپے کی قدر مستحکم رکھنے سے ملک کی اقتصادی صورتحال بھی بہتر ہو گی جبکہ قرضوں کی ادائیگی میں بھی سہولت رہے گی۔

ع ب/ ک م (خبر رساں ادارے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں