پاکستانی فوج کے سربراہ امریکی دورے پر
14 نومبر 2015جنرل راحیل شریف کا چھ روزہ امریکی دورہ بیس نومبر کو اختتام پذیر ہو گا۔ اُن کے اِس دورے کے دوران واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان بعض سکیورٹی معاملات پر پائے جانے والے خدشات پر گفتگو کے اشارے دیے گئے ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی جنرل کے دورے کے دوران پاکستان کی سویلین حکومت اور فوج کے مابین عدم توازن پر بھی امریکی حکام گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جنرل شریف کے دورے سے ایک دو ہفتے قبل پاکستانی وزیراعظم بھی امریکی دورے کے دوران صدر باراک اوباما سے ملاقات کر چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اوباما اور نواز شریف کی ملاقات میں جن معاملات پر گفتگو کی گئی تھی، کم و بیش ویسا ہی بات چیت کا ایجنڈا امریکی دفاعی و سیاسی اہلکار پاکستانی فوج کے سربراہ کے لیے اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس میں افغان امن مذاکرات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جوہری ہتھیار سازی کی بڑھتی خواہشات خاص طور پر نمایاں ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کی اعلیٰ کمان افغان امن مذاکرات اور جوہری ہتھیار سازی کے معاملات پر خاصا اثر رکھتی ہیں اور یہ سویلین حکومت سے زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔ دفاعی و سکیورٹی تجزیہ کار طلعت مسعود کا اِس مناسبت سے کہنا ہے کہ امریکی جانتے ہیں کہ اِن معاملات پر اختیار کس کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح پاکستان کے معتبر روزنامے ڈان کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ جنرل شریف کے لیے امریکا کا یہ دورہ مشکل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ واشنگٹن کی توقعات میں توازان پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
اِس دورے کے دوران جنرل شریف امریکی دفاعی حکام کے ساتھ کئی معاملات پر تفصیلی بات چیت کریں گے اور اِن میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں طالبان انتہا پسندوں کی چھتری تلے پنپنے اور جڑیں مضبوط کرنے والے حقانی نیٹ ورک کے خلاف ملٹری ایکشن کا معاملہ اہم سمجھا گیا ہے۔ واشنگٹن میں بعض حکومتی ذرائع کا خیال ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ابھی تک ضرورت کے مطابق ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ ایک سال میں پاکستان کی بری فوج کے سربراہ کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ اِس مناسبت سے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ امریکیوں نے پاکستانی جنرل کو دورے کی دعوت نہیں دی ہے بلکہ جنرل شریف نے خود ہی اِس دورے کو شروع کرنے کا ارادہ بنایا ہے۔