پاکستانی ماؤں میں دودھ نہ پلانے کے رجحان سے بچے کمزور
2 نومبر 2016سات بچوں کی ماں ماہ پری پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ایک ذرخیز خطے میں رہتی ہے۔ اُس کی گود میں اس کا دو سالہ بچہ بھوک سے بلبلا رہا ہے۔ ماہ پری نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ میرے تمام بچے پیدائش کے وقت بہت کمزور تھے۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ میرے دودھ میں طاقت نہیں ہے۔‘‘
پاکستان میں بہت سی ماؤں کو اپنے نومولود بچوں کو چائے، جڑی بوٹیوں کا ست یا بازار میں ملنے والے پاؤڈر کا دودھ پلانے کو کہا جاتا ہے اور یہی اِن بچوں کی مکمل نشوونما نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ آٹھویں بار حاملہ ہونے والی ماہ پری نے کہا،’’ ہماری بلوچی ثقافت میں بچوں کو دن میں دو بار پسی ہوئی جڑی بوٹیوں کا پانی پلایا جاتا ہے۔ میں بھی اپنے دو سالہ بچے کو چائے اور دن میں دو بار اپنا دودھ پلاتی ہوں۔‘‘ نوزائیدہ بچوں کے لیے خوراک کا یہ معیار عالمی ادارہء صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی بتائی گئی سفارشات سے کہیں کم ہے۔
پاکستان میں دوسری جگہوں پر چھوٹے بچوں کو گھی، شہد اور گنے کا رس بھی دیا جاتا ہے۔ ماہ پری کو پختہ یقین ہے کہ بچوں کو دی جانے والی روایتی خوراک ماں کے دودھ سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ماہ پری کا کہنا تھا،’’ مجھے سارا دن گھر میں کام کرنا ہوتا ہے۔ میرے پاس بچے کو اپنا دودھ پلانے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔‘‘ فرانسيسی امدادی تنظيم ’’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘‘ کے زیرِ نگرانی منجو شوری کے علاقے میں چلائے جانے والے ایک دیہی کلینک میں ماہ پری کے دو سالہ بیٹے گل میر کا وزن کیا گیا تو وہ صرف پانچ کلو تھا۔ گل میر کی عمر کے بچے کا یہ وزن اس عمر میں ہونے والے مثالی وزن سے نصف سے بھی کم ہے۔
مغربی ممالک میں نومولود بچوں کا اوسط وزن ساڑھے تین کلوگرام ہوتا ہے۔ بچوں کی نا مکمل نشوونما کی یہ صورتِحال صرف بلوچستان کے صوبے تک ہی محدود نہیں۔ یونیسف کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں میں یہ صورتِ حال ابتر ہے۔
یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان بچوں کی نشوونما میں گراوٹ کی سب سے زیادہ شرح رکھنے والےممالک میں سے ایک ہے۔ اس کی وجوہات میں ناقص غذا، حفظانِ صحت کے مسائل اور آلودہ پانی کا استعمال بھی شامل ہیں۔
برازیل ميں ماں کے دودھ کا بینک دنیا کے لیے ایک ماڈل
ماہ پری کے سسر رسول کا کہنا ہے کہ اُن کی بہو کا اپنا دودھ اِس لیے کم ہے کہ غربت کے باعث اُسے کھانے کے لیے صرف روٹی ملتی ہے۔ پاکستان میں صرف اڑتیس فیصد بچے ایسے ہیں جنہیں ان کی پیدائش کے پہلے چھ ماہ میں عالمی ادارہء صحت کی سفارشات کے مطابق ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے۔
ماں کا دودھ قدرت کی انمول نعمت
پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ شیر خوار بچوں میں نشوونما کی گراوٹ کی شرح کے مسئلے سے آگاہ ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے ایک ہدف بھی مقرر کر رکھا ہے، جس کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ تک مکمل نشوونما کی شرح کو چالیس فیصد بہتر بنایا جائے گا۔
تاہم دس سالہ حکومتی منصوبے میں اِس متنازعہ موضوع کا ذکر نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب مسئلے پر قابو پانے کے لیے زیادہ تر عطیات بھی بین الاقوامی ڈونرز کی جانب سے دیے جا رہے ہیں۔