پاکستانی ’ماڈرن مرد‘ بھی دلکش نظر آنے کی دوڑ میں آگے آگے
28 فروری 2018پاکستان کے شہری علاقوں میں عرصہء دراز سے خواتین، تو بیوٹی پارلرز میں فیشلز، بالوں کی سٹائلنگ اور خوبصورتی کی دیگر سہولیات کا فائدہ اٹھا ہی رہی ہیں لیکن اب اس میدان میں پاکستانی مرد بھی پیچھے نہیں رہے۔ آج بڑے شہروں میں مردوں کے بیوٹی پارلر عام ہیں۔ پاکستان کے ان ’ماڈرن مردوں‘ کو اپنی خوبصورتی کا خیال رکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ یہ اپنے چہرے کی جلد کو چمکدار بنانے کے لیے باقاعدگی سے فیشل بھی کراتے ہیں اور نئے سے نیا ہیئر سٹائل بھی بنوانا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد میں مردوں کے ایک بیوٹی پارلر کو توثیق حیدر چلا رہے ہیں۔ انہوں نے مردوں کی بیوٹی کیئر میں دلچسپی کے حوالے سے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ مردوں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اچھا لگیں اور اپنا خیال رکھیں۔ اب وقت بدل گیا ہے۔‘‘ حیدر کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں بڑی عمر کے مرد، بیوروکریٹس اور نوجوان مرد بیوٹی پارلر آکر فیشل، مساج اور اپنے ناخن تک صاف کراوتے ہیں۔ حید کے پارلر میں بال کٹوانے میں اوسط چودہ سو روپے خرچ ہوتے ہیں یہی کام کسی عام بیوٹی سلون میں دو سو روپے میں بھی ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں ایک عام مرد اپنے رکھ رکھاؤ اور کپڑے پہننے کے سلیقے کے بارے میں مذہبی علماء کے احکامات کو مانتا ہے۔ لیکن اب وقت بہت حد تک بدل گیا ہے اور مرد بھی عورتوں کی طرح جدید فیشن کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں ہی ایک لبنانی شہری مائیکل کنان گزشتہ دس برسوں سے بیوٹی پارلر کا کامیاب کاروبار کر رہے ہیں۔ مائیکل کا کہنا ہے،’’ پاکستانی مرد اب ’میٹرو سیکشوئل‘ بن رہا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کی وجہ سے بھی ہوا ہے۔‘‘ ماہر اقتصادیات منہاج الحق کے مطابق اب بہت سی فیشن کمپنیاں مردوں کو مد نظر رکھ کر اپنی بنائی گئی مصنوعات کی تشہیر کر رہی ہیں۔ 49 سالہ ہمایوں خان کا کہنا ہے کہ وہ ہر ماہ بال بھی کٹواتے ہیں اور فیشل بھی کرواتے ہیں اور ان کی اہلیہ یہ سب کچھ پسند بھی کرتی ہیں۔
کابل کے پُر رونق بیوٹی پارلر یا خواتین کے لیے پناہ گاہیں
فیشن سٹائلسٹ گلفام غوری کا کہنا ہے کہ بالوں کے علاوہ بھی اب مرد یہ چاہتے ہیں کہ ان کی جلد صاف ہو اور کبھی کبھار وہ میک اپ کرنا بھی پسند کرتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی فارمیسی چین، ڈی واٹسن گروپ کے چیئرمین کا کہنا ہے،’’ پاکستان میں ایک انقلاب آ رہا ہے، مردوں کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے، وہ اب اپنے چہرے، اپنے بالوں، بیوٹی اور اپنے لباس کے حوالے سے حساس ہو رہے ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے۔‘‘