ڈاکٹر روتھ فاؤ کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جائے گی
William Yang/ بینش جاوید DPA
11 اگست 2017
قریب چھ دہائیوں تک پاکستان میں جذام کے مریضوں کا علاج کرنے والی جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ کی تدفین پاکستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جائے گی۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ بدھ کی شب 87 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں۔
اشتہار
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قائم میری ایڈلیڈ لپرسی سینٹر کی ترجمان سلوا زینگ کے مطابق ڈاکٹر روتھ فاؤ کا انتقال انہی کے قائم کردہ اس سنٹر سے منسلک ہسپتال میں ہوا۔
پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت پاکستان کے لیے ڈاکٹر روتھ فاؤ کی ’’بے لوث اور بے مثال‘‘ خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتی ہے اور ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جائے گی۔
پاکستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کا اعزاز بہت ہی کم لوگوں کو ملتا ہے اور عام طور پر یا تو سربراہان حکومت یا ریاست یا پھر جنگ میں مرنے والے فوجیوں کو یہ اعزاز دیا جاتا ہے۔
جرمن شہر لائپزگ میں 1929ء کو پیدا ہونے والی ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ 1960ء سے پاکستان میں مقیم تھیں اور جزام یا کوڑھ جیسی بیماری میں مبتلا افراد کے علاج میں مصروف تھیں۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی پاکستانی قوم کی خدمت میں سرف کر دی۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کی امدادی تنظیم کے ترجمان شارق زمان کے مطابق ان کی آخری رسومات 19 اگست کو کراچی کے سینٹ پیٹرک چرچ میں انجام دی جائیں گی جس کے بعد انہیں کراچی ہی کے گورا قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کی چوتھی برسی
پاکستان میں جذام کے مریضوں کی مسیحا جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ نے پچاس برس سے زائد کا عرصہ پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جنگ کرتے ہوئے گزارا۔ آج ڈاکٹر روتھ فاؤ کی چوتھی برسی ہے۔
تصویر: DAHW/M.Gertler
محض ایک اتفاق
دوسری عالمی جنگ کی دہشت کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گی۔ تاہم ڈاکٹر فاؤ کا پاکستان جانا اور وہاں فلاحی کام کرنا محض ایک اتفاق تھا۔
تصویر: DAHW/Bauerdick
کراچی میں پڑاؤ
سن انیس سو ساٹھ میں ڈاکٹر روتھ کو بھارت میں کام کرنے کی غرض سے جانا تھا لیکن ویزے کے مسائل کی وجہ سے انہیں کراچی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔ اسی دوران انہیں جذام سے متاثرہ افراد کی ایک کالونی میں جانے کا موقع ملا۔ مریضوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گی اور ایسے مریضوں کی مدد کریں گی۔
تصویر: DAHW
کلینک کا قیام
اس کے بعد سن 1963ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کا قائم کردہ کلینک جلد ہی جذام سے متاثرہ افراد کے لیے ايک دو منزلہ ہسپتال میں تبدیل ہو گیا اور رفتہ رفتہ پاکستان بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔
تصویر: DAHW/B.Kömm
ہزاروں مریضوں کا علاج
ان کے قائم کیے گئے ہسپتال میں نہ صرف ڈاکٹروں کو تربیت دی گئی بلکہ ہزاروں مریضوں کا علاج بھی کیا گیا۔ ان کی انہی کاوشوں سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نےسن 1968ء میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔
تصویر: DAHW
پاکستان سے محبت
روتھ فاؤ پاکستان کے بارے میں کہتی تھیں ، ’’مجھے پاکستان میں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ میں نے لوگوں کی خدمت کے لیے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں بھی کام کیا ہے، جہاں زیادہ تر لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے جانتے ہیں اور کبھی بھی کسی نے میرے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
تصویر: DAHW/M.Gertler
دو دن اور دو راتیں
سن 1929ء میں جرمن شہر لائپزگ میں پیدا ہونے والی روتھ فاؤ اس وقت 17 برس کی تھیں، جب انہوں نے مشرقی جرمنی سے سرحد پار کر کے مغربی جرمنی آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی کے مغربی جرمنی میں داخلے کے لیے وہ مسلسل دو دن اور دو راتیں چلتی رہی تھیں۔
تصویر: DAHW/R.Bauerdick
خوشحال زندگی کے خواب
خوشحال زندگی گزارنےکے لیے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے والی روتھ فاؤ نے تمام زندگی پاکستانی صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دیتے گزار دی۔
تصویر: DAHW/M.Gertler
خاموش ہیرو کا ایوارڈ
ڈاکٹر روتھ فاؤ کو سن دو ہزار بارہ میں جرمنی میں ’خاموش ہیرو‘ کا بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ ’بامبی‘ بھی دیا گیا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کو یہ میڈیا پرائز جرمنی کے شہر ڈوسلڈورف ميں منعقدہ ايک تقريب ميں دیا گیا تھا، جہاں دنیا بھر سے ٹیلی وژن اور فلم کی ایک ہزار سے زائد شخصیات جمع تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
جس زمانے میں پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کو شہر سے باہر منتقل کر دیاجاتا تھا اور ان کے اپنے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیتے تھے ایسے میں ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتیں اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھیں۔ کراچی میں انہوں نے سسٹر بیرنس کے ساتھ میکلو روڈ پر ڈسپنسری سے کوڑھ کے مریضوں کی خدمت شروع کی۔ جس کے کچھ عرصے بعد انہوں نے میری ایڈیلیڈ لپروسی سنٹر کی بنیاد رکھی۔ یہ سنٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا۔ انہوں نے جذام کے علاج اور اس مرض میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال کے لیے پاکستان بھر میں 157 مراکز قائم کیے۔
ڈاکٹر فاؤ 1975ء سے 1980ء تک جذام کے خاتمے کی کوششوں کے لیے پاکستانی حکومت کی مشیر بھی رہیں۔ یہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی اس مرض کے خلاف انتھک جدوجہد اور محنت کا ہی ثمر تھا کہ عالمی ادارہ صحت WHO نے پاکستان کو ایشیا کا پہلا ایسا ملک قرار دیا جہاں سے جذام کا خاتمہ کر دیا گیا۔
ڈاکٹر فاؤ کو ان کی گراں قدر خدمات پر پاکستانی حکومت کی جانب سے انہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز، جناح ایوارڈ اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ جبکہ جرمن حکومت نے انہیں بیم بی ایوارڈ اور آغا خان یونیورسٹی نے روتھ فاؤ کو ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔
کوڑھیوں کی مسیحا جرمن ڈاکٹر رُوتھ فاؤ کے انتقال پر خصوصی ویڈیو