چینی حکام کی جانب سے ملک کی ایغور نسل سے تعلق رکھنے والی اُن مسلمان خواتین کو حراست میں لینے کی اطلاعات ہیں جنہوں نے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مردوں سے شادی کی تھی۔
اشتہار
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں چینی نژاد ان خواتین کی گرفتاری پر خاصا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان خواتین کو چین میں گزشتہ چند ماہ کے دوران مبینہ طور پر شدت پسندوں کے ساتھ تعلقات کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے نمائدے ستار خان کے مطابق کم از کم 39 خواتین کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات ہیں لیکن ان خواتین کے شوہروں میں سے زیادہ تر اپنی بیویوں اور چینی صوبہ سنکیانگ میں ان کے خاندان کے افراد کی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کے پیش نظر میڈیا سے بات چیت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ تاہم چند مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اگر چین اور پاکستان کی حکومت حراست میں لیے جانے والوں کی رہائی میں ناکام رہی تو وہ احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیں گے۔
گلگت بلتستان کے حکومتی ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق اس معاملے پر پاکستانی حکام، چین کی وزارت خارجہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت مقامی افراد میں اس حوالے سے پائی جانے والی بے چینی سے واقف ہے اور گلگت بلتستان کی اسمبلی میں خواتین کی حراست کے خلاف ایک احتجاجی قرارداد بھی پاس کی گئی ہے۔
چین کا علاقہ سنکیانگ، پاکستانی صوبے گلگت بلتستان کے قریب ہی واقع ہے جس کے باعث ان دونوں خطوں کے عوام کے درمیان تاریخی، ثقافتی اور خاندانی مراسم عراصہ دراز سے قائم ہیں۔ چین میں موجود ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں اور گلگت بلتستان کے مقامیوں کے درمیان شادیاں اکثر و بیشتر ہوتی رہتی ہیں۔
ایغور مسلمان چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ترک زبان بولنے والے مسلمان ہیں جنہیں ایک طویل عرصے سے ملک کی کمیونسٹ حکام کی جانب سے کارروائی کا سامنا ہے۔ سنی مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل یہ اقلیت، چین کی جانب سے تسلیم شدہ 55 نسلی اقلیتیوں میں سے ایک ہے۔ تاہم چین میں یہ اقلیت خود کو امتیازی سلوک کا شکار محسوس کرتی ہے۔ ان کے خیال میں بیجینگ ان کے ثقافتی تشخص، سیاسی حق اور مذہب کو کمزور کرنے کی کوشش کے علاوہ ان کے قدرتی وسائل کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے چینی حکومت، سنکیانگ میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ نہایت سختی برت رہی ہے۔ اس باعث کئی ایغور مسلمان انتہا پسندی اور جارحیت کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ اس تمام صوتحال کو عموماﹰ چین کے داخلی سکیورٹی مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاہم بعض ماہرین کے مطابق اس کو عالمی سطح پر جہاد اور اسلامی بنیاد پرستی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔