پاکستانی مردوں کی چینی ’کیمپوں میں قید‘ ایغور مسلم بیویاں
17 دسمبر 2018
پاکستانی شہری چوہدری جاوید عطا نے آخری بار اپنی بیوی کو ایک سال پہلے دیکھا تھا۔ تب یہ پاکستانی تاجر چین کے شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ سے اس لیے واپس پاکستان جا رہے تھے کہ اپنے ویزے کی تجدید کروا سکیں۔
اشتہار
چوہدری جاوید عطا خشک اور تازہ پھلوں کے ایک ایسے پاکستانی تاجر ہیں، جو سنکیانگ میں ایغور مسلم نسل کی اپنی چینی بیوی کے ساتھ اپنے گھر میں خوشی سے رہ رہے تھے۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ ان کی چینی اہلیہ نے ان سے آخری بات یہ کہی تھی، ’’جیسے ہی تم جاؤ گے، وہ (چینی حکام) مجھے کسی کیمپ میں لے جائیں گے اور پھر میں کبھی واپس نہ لوٹ سکوں گی۔‘‘
دو سو پاکستانیوں کی بیویاں لاپتہ
یہ اگست 2017ء کی بات ہے۔ تب جاوید عطا اور چین میں ایغور مسلم نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والی ان کی اہلیہ امینہ ماناجی کی شادی کو 14 برس ہو چکے تھے۔ چوہدری جاوید عطا پاکستان کے ان قریب 200 کاروباری افراد میں سے ایک ہیں، جن کی چینی بیویاں لاپتہ ہو چکی ہیں۔ ان چینی خواتین کو ملکی حکام ’تعلیمی تربیتی مراکز‘ کہلانے والے کیمپوں میں پہنچا چکے ہیں۔
بیجنگ حکومت پر الزام ہے کہ اس نے ملک میں مسلم اقلیتی آبادی کے قریب ایک ملین تک افراد کو نظربندی کیمپوں میں بند کر رکھا ہے، جہاں ان مسلم شہریوں کی انہیں ان کے مذہب سے دور کرنے کے لیے ’نئے سرے سے تربیت‘ کی جا رہی ہے۔ بیجنگ حکومت نے یہ قدم سنکیانگ میں ہونے والے ان مظاہروں اور بدامنی کے واقعات کے ردعمل میں اٹھایا، جن کے لیے سرکاری طور پر ایغور علیحدگی پسندوں کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔
’یہ کیمپ نہیں، جیلیں ہیں‘
اس بارے میں چوہدری جاوید عطا نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’وہ (چینی حکام) ان کیمپوں کو ’اسکول‘ قرار دیتے ہیں۔ لیکن دراصل وہ جیلیں ہیں، جن سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکتا۔‘‘ پاکستان میں، جو اکثریتی طور پر ایک مسلم آبادی والا ملک ہے، دنیا کے کسی بھی ملک میں اسلام یا مسلمانوں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کی صورت میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایسے پرتشدد مظاہرے اس وقت بھی دیکھنے میں آئے تھے جب ہالینڈ کے ایک متنازعہ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کے ایک متنازعہ مقابلے کا اہتمام کرنے کا اعلان کیا تھا۔
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
لیکن ہمسایہ ملک چین سے وابستہ پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی وجہ سے، جن میں بیجنگ کی طرف سے پاکستان میں کی جانے والے موجودہ بےتحاشا سرمایہ کاری بھی شامل ہے، اسلام آباد حکومت اور کئی دیگر مسلم ممالک چین کے ایغور مسلم شہریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر مسلسل خاموش ہیں۔
پاکستان اور مسلم دنیا خاموش کیوں
واشنگٹن میں قائم وُڈرو ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کُوگل مین کے بقول ’فیصلہ کن حیثیت ہمیشہ ٹھوس مفادات ہی کی رہی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’مسلم دنیا نے اب تک بیجنگ حکومت کی طرف سے چینی ایغور مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک پر جو مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اس کا سبب وہ اقتصادی مفادات ہیں، جن کے ذریعے مسلم ممالک دنیا کی اگلی سپر پاور کے ساتھ اپنے قریبی روابط قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
سی پیک بھی ایک وجہ
پاکستان کو سرمائے کی شدید کمی کا سامنا ہے اور چین اپنے اس ہمسایہ ملک میں بہت سے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالی وسائل مہیا کر رہا ہے۔ ان منصوبوں میں سے ایک چین پاکستان اقتصادی راہداری یا ’سی پیک‘ بھی شامل ہے، جس کے لیے اسلام آباد کے مطابق چین پاکستان میں قریب 75 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
سانحہ تیانمن اسکوائر کے تیس برس
چینی حکومت نے 1989ء میں جمہوریت کے حق میں نکالے جانے والے مظاہروں کو میڈیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کی بھرپور کوشش کی تاہم AP کے فوٹو گرافر جیف وائڈنر چند دیگر صحافیوں کی طرح کچھ یادگار لمحات محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جمہوریت کی دیوی
چار جون کو سانحہ تیانمن اسکوائر کے تیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔ اُسی مقام پر جہاں چار جون 1989ء کو جمہوریت نواز مظاہرین کی ایک ریلی پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے، وہیں فوجی دستوں نے 33 فٹ لمبے اس زیر تعیمر مسجمے کو بھی مسمار کر دیا تھا، جیسے ’جمہوریت کی دیوی‘ کا نام دیا گیا تھا۔
تصویر: Jeff Widener/AP
نغمہ سرا خاتون پولیس اہلکار
چینی سکیورٹی فورسز کے خونی کریک ڈاؤن سے قبل پُرتناؤ ماحول میں مقامی شہری فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو اکثر تحائف بھی پیش کرتے تھے۔ کبھی کبھار سکیورٹی اہلکار بھی مظاہرین کے ساتھ مل کر حب الوطنی پر مبنی گیت گنگنایا کرتے تھے۔ سانحہ تیانمن اسکوائر سے کچھ روز قبل ایک خاتون پولیس اہلکار مظاہرین کے ساتھ مل کر ایک ملی ترانہ گا رہی ہے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جدوجہد
چارجون 1989 کو سکیورٹی فورسز نے تیانمن اسکوائر پر قابض جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف عسکری کارروائی کرتے ہوئے اس مقام کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس دوران سینکڑوں شہری مارے بھی گئے تھے۔ اس عسکری کارروائی سے ایک روز قبل پولیس اہلکار ایک خاتون کو گرفتار کرتے ہوئے۔ بعد ازاں اُسی رات فوج نے تیانمن اسکوائر پر جمع مظاہرین پر بلا تخصیص فائرنگ شروع کر دی تھی۔
تصویر: Jeff Widener/AP
چھینے ہوئے ہتھیار
تیانمن اسکوائر پر فوجی کارروائی سے کچھ دن قبل لی گئی ایک تصویر۔ جمہوریت نواز مظاہرین سکیورٹی اہلکاروں سے چھینے گئے ہتھیاروں کی نمائش کر رہے ہیں۔ ایک بس کی چھت پر رکھے گئے ان ہتھیاروں کو دیکھنے کے لیے ہزاروں مظاہرین وہاں جمع ہیں۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جمہوریت کی خاطر جنگ
تین جون کی رات ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک بکتر بند فوجی گاڑی پر موجود مظاہرین۔ مظاہرین کی طرف سے تیانمن اسکوائر پر لگائی گئی رکاوٹوں کو اسی گاڑی نے روند ڈالا تھا۔ اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ چینی فوجی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرنے کی تیاری میں تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جلتی ہوئی بکتر بند گاڑی
تین جون کی رات کو ہی جمہوریت نواز مظاہرین نے تیانمن اسکوائر کے نواح میں واقع چنگ اَن ایونیو میں ایک فوجی گاڑی کو نذر آتش کر دیا تھا۔ فوٹو گرافر جیف وائڈنر کی طرف سے لی گئی یہ آخری تصویر تھی، جس کے بعد ان کے چہرے پر ایک پتھر آن لگا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
کریک ڈاؤن
چار جون کو پیپلز لبریشن آرمی کے فوجی بیجنگ ہوٹل کے بالکل سامنے واقع چنگ اَن ایونیو میں گشت کرتے ہوئے۔ اُس وقت تک طالب علموں کی طرف سے جمہوریت کے حق میں کیے جانے والے مظاہروں کو کچلا جا چکا تھا۔ اُسی دن فوج نے بیجنگ ہوٹل کی لابی میں کھڑے ہوئے سیاحوں پر بھی فائرنگ کی تھی۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ٹینکوں کے سامنے کھڑا تنہا شخص
خونی کریک ڈاؤن کے ایک دن بعد ہی ہاتھوں میں شاپنگ بیگز تھامے ایک نامعلوم شخص نے چنگ اَن ایونیو میں ٹینکوں کو عارضی طور پر آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔ پچیس سال گزر جانے کے بعد بھی یہ شخص ایک معمہ بنا ہوا ہے اور اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ یہ کون تھا اور اب کہاں ہے۔ اس سانحے کے دوران لی جانے والی تصاویر میں یہ ایک انتہائی مقبول تصویر شمار کی جاتی ہے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ہیروز، جو ہلاک ہو گئے
پانچ جون 1989ء کو چنگ اَن ایونیو میں جمع ہونے والے افراد ایک روز قبل ہونے والے خونی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہلاک ہو جانے والے مظاہرین کی تصاویر دکھا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم ازکم تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
خاکروب
چار جون کے سانحے کے ایک روز بعد چنگ اَن ایونیو پر صفائی کا کام کیا جا رہا ہے۔ مظاہروں کے دوران وسیع پیمانے پر بسوں اور فوجی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد فوجی ہلاک یا زخمی بھی ہوئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ماؤ کی ’حفاظت‘
جمہوریت کے حق میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد تیانمن اسکوائر پر فوجی اور ٹینک تعینات کر دیے گئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
’شہرِ ممنوعہ‘
بیجنگ کے وسطی علاقے ’شہر ممنوعہ‘ میں لی گئی ایک تصویر، جس میں اے پی کے فوٹو گرافر جیف وائڈنر (بائیں) اور لِیو ہیونگ ِشنگ مسکراتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بے خبر تھے کہ کچھ دن بعد ہی چینی فورسز طاقت کے بل پر جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والی ہیں۔
تصویر: Jeff Widener/AP
12 تصاویر1 | 12
مستقبل میں زیادہ خوشحالی کی خواہش مند پاکستانی حکومت ملک میں اس چینی سرمایہ کاری کو انتہائی اہم قرار دیتی ہے۔ اس لیے بھی کہ ایک عام پاکستانی شہری ابھی تک ماہانہ صرف قریب 125 امریکی ڈالر کے برابر آمدنی میں گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔
بچوں کے پاسپورٹ بھی ضبط
دوسری طرف چوہدری جاوید عطا کے لیے معاملہ صرف ان کی ان کی بیوی سے جبری علیحدگی کا نہیں ہے۔ وہ واپس پاکستان جاتے ہوئے اپنے پانچ اور سات سال کی عمر کے دو بیٹے بھی اپنی چینی اہلیہ کے پاس ہی چھوڑ آئے تھے، جن کے پاسپورٹ چینی حکام نے ضبط کر رکھے ہیں۔ اس وقت یہ دونوں پاکستانی نژاد چینی لڑکے اپنی والدہ کے خاندان کی نگہداشت میں ہیں۔
اپنی بیوی کے حراست میں لیے جانے کے بعد سے جاوید عطا دو مرتبہ چند ماہ کے لیے چین جا چکے ہیں۔ لیکن دونوں مرتبہ ہی انہیں اپنا ویزا ختم ہو جانے پر واپس پاکستان لوٹنا پڑا۔ اب اس پاکستان شہری کے لیے اپنی ایک ’تربیتی کیمپ میں بند اور حکام کی طرف سے بھلا دی گئی‘ چینی بیوی سے کسی طرح رابطہ کرنا یا ان کے بارے میں کوئی بھی معلومات حاصل کرنا انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
دونوں بیٹوں سے رابطہ بھی ممکن نہیں
چوہدری جاوید عطا کہتے ہیں، ’’میرے لیے بہت زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اب قریب نو ماہ ہونے کو ہیں، میں نے اپنے بیٹوں کو نہیں دیکھا۔ مجھے ان سے بات تک کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جاوید عطا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’سنکیانگ میں میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ میرے برادر نسبتی کو دل کا دورہ پڑا تھا اور وہ سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی کے ایک ہسپتال میں تھا۔ مجھے بالآخر اس سے بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے بتایا کہ میرے دونوں بیٹے خیریت سے ہیں۔ لیکن میری بیوی کیسی ہے، اس بارے میں تو اس کے بھائی کو بھی کوئی خبر نہیں تھی۔‘‘
پاکستانی شوہروں کی ’مقید‘ چینی بیویاں
02:05
پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین کی منطق
پاکستانی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین کہتے ہیں کہ پاک چین تعلقات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے داخلی معاملت میں مداخلت اور ان پر کوئی تبصرہ کرنے سے بھی احتراز کرتے ہیں۔
دوسری طرف چینی حکام کا مسلسل دعویٰ ہے کہ سنکیانگ میں قریب ایک ملین تک ایغور مسلم شہریوں کا ’تربیتی مراکز‘ میں بھیجا جانا ایک ایسی کوشش ہے، جس کا مقصد سنکیانگ میں ’استحکام اور دیرپا امن‘ کو یقینی بنانا ہے۔
لیکن جس بات کی پاکستانی سینیٹ کے رکن مشاہد حسین نے وضاحت نہیں کی وہ یہ ہے کہ اگر معاملہ سینکڑوں پاکستانی شہریوں کی چینی بیویوں اور ان سے پیدا ہونے والے پاکستانی نژاد چینی بچوں کا ہو، تو اس بارے میں اسلام آباد کی طرف سے بیجنگ کے ساتھ کوئی باضابطہ بات چیت کرنے کو چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے۔
م م / ع ت / اے پی
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔