1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی مرد عورت مارچ سے خوف زدہ کیوں ہیں؟

1 مارچ 2022

ہاؤس آفیسر پروین رند کو سندھ کی ایک میڈیکل یونیورسٹی کے آفیسر نے مبینہ طور پر ہراساں کیا اور مطالبات پورے نہ ہونے پر خواتین افسران نے پروین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ سندھ ہائی کورٹ میں ان کا کیس زیر سماعت ہے۔

تصویر: privat

حال ہی میں قندیل بلوچ کے قاتل محمد وسیم کو لاہور ہائی کورٹ نے بری کر دیا۔ صوبہ سندھ کی میڈیکل یونیورسٹیز کی دو طالبات نمرتا چندانی اور نوشین کاظمی کے مبینہ قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ان دونوں کا قاتل مبینہ طور پر ایک ہی شخص ہے۔

نو سال توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی کو دو ہزار اٹھارہ میں سپریم کورٹ نے بری کر دیا لیکن مذہبی اور سیاسی انتہا پسند جماعتوں کی طرف سے قتل کئے جانے کے ڈر سے دو ہزار انیس میں وہ پاکستان چھوڑ کر کینیڈا چلی گئیں۔ دو ہزار دو میں پنچائت کے حکم پر گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی مختارہ مائی کیس کے 13 مجرموں کو بری کر دیا گیا۔

مذکورہ کیسز کے علاوہ روزمرہ کی بنیاد پر پاکستانی خواتین کو ان گنت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ چار برس سے آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں خواتین عورت مارچ کا انعقاد کرتی ہیں اور عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں۔

انصاف سے جڑے مسائل کے پیش نظر دو ہزار بائیس میں عورت مارچ لاہور کے منتظمین نے اس برس مارچ کی تھیم 'انصاف کا نیا تصور  اور  حقیقی انصاف‘  رکھا ہے۔ لیکن ہر سال کی طرح اس سال بھی عورت مارچ نئے تنازعہ کا شکار ہو رہی ہے۔ اس بار مخالفت کسی مذہبی انتہا پسند جماعت کی طرف سے نہیں ہے بلکہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری کی طرف سے ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو ایک خط لکھا اور درخواست کی ہے کہ آٹھ مارچ کو حکومت کی طرف سے بین الاقوامی یوم حجاب منایا جائے۔

وفاقی وزیر نے خط میں عورت مارچ کے بینرز، پلے کارڈز اور نعروں کو 'اسلامی نظام معاشرت‘ کے لئے مسئلہ قرار دیا ہے اور درخواست کی ہے کہ عورت مارچ کے نام پر 'اسلامی شعائر، معاشرتی اقدار، حیا و پاک دامنی پردہ و حجاب کا تمسخر‘ اڑانے کی اجازت نہ دی جائے۔

گزشتہ برسوں میں کچھ مخالفین نے عورت مارچ کو ایک غیر ملکی ایجنڈا قرار دیا، جس کے ذریعے مسلمان عورتوں کو بہکانے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ پچھلے سال ڈاکٹرڈ ویڈیوز کے ذریعے مارچ کی منتظمین اور دوسری خواتین پر توہین مذہب تک کے الزامات بھی لگائے گئے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستانی مرد عورت مارچ سے خوفزدہ کیوں ہیں اور اس کو روکنے کے لئے مختلف اقدامات کیوں کر رہے ہیں؟

عورت مارچ میں ملک بھر سے خواتین متحد ہو کر خواتین کے ساتھ روزمرہ کی بنیاد پر پیش آنے والے مسائل کی نشاندہی کر کے ان پر ڈائیلاگ کا آغاز کرتی ہیں۔ جنسی ہراسانی، ریپ، عورتوں کی شخصی آزادی اور زندگی کے فیصلے خود کرنے کا اختیار، تعلیم کا حق، کم عمری کی شادی، جبری مذہب کی تبدیلی، غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل، معاشرتی اور خاندان کی سطح پر عورتوں کے ساتھ برابری کا سلوک اور انصاف کی فراہمی ان مسائل کی فہرست میں شامل ہیں، جن پر عورت مارچ میں آواز اٹھائی جاتی ہے۔

ان مسائل کی نشاندہی کر کے خواتین کے عالمی دن پر عورتیں ان مسائل کو حکومت کے سامنے لاتی ہیں تاکہ ان پر ڈائیلاگ کا آغاز ہو۔ ساتھ ہی اس بات کی نفی ہو کہ پاکستان میں خواتین کو سب سے زیادہ عزت دی جاتی ہے کیونکہ بیشتر کیسز میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کرنے والے مرد حضرات کا تعلق انہی کی فیملی سے ہوتا ہے۔

یہ بات پدرسری معاشرے کے مردوں کو ٹھیس پہنچاتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک مرد عورتوں کو نہ صرف عزت دیتے ہیں بلکہ ان کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ مردوں کی نظر میں عورت مارچ کا انعقاد کر کے خواتین کا ایک مخصوص طبقہ فیملی کے نظام کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس مارچ میں یہ بات منظر عام پر آتی ہے کہ ملزم کون ہے؟ اور پھر آگاہی کے ذریعے اس ملزم کو جواب دہ بھی ہونا پڑتا ہے۔

پاکستانی خواتین کا ایک طبقہ پیش کردہ مسائل کا شکار تو ہے لیکن یا تو وہ عورتیں اس پر بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتیں یا پھر اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر یا پھر 'سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے‘ کہہ کر خاموش ہو جاتی ہیں۔ جبکہ اکثر و بیشتر خواتین کو 'گھر کی عزت گھر میں رکھنے‘ کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔

اس صورت حال میں عورت مارچ کا انعقاد خواتین کے مسائل سے متعلق ایک شعور بیدار کرتا ہے اور اسلام اور پاکستان کے آئین میں خواتین کو دیے گئے حقوق کے سلب ہونے پر آواز اٹھانے کے لئے ایک موقع اور پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔

اکثر و بیشتر پاکستانی مردوں کو عورتوں کے اس شعور کے بیدار ہونے سے خوف آتا ہے کیونکہ عورت مارچ پدرسری معاشرے اور اس کے اصولوں پر ایک ضرب لگاتا ہے اور صدیوں سے معاشرے پر چلتی ہوئی مرد کی حکمرانی کی حقیقت کو للکارتا ہے۔

عورتوں کا اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے پدرسری سوچ کے پاکستانی مردوں کو اس لئے بھی خوف آتا ہے کیونکہ خواتین کو اگر ان کا حق تحفظ کے ساتھ ملتا ہے تو وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں گی اور ان سے آگے نکل جائیں گی۔ لہذا وہ عورت مارچ کی نہ صرف نفی کرتے ہیں بلکہ اس کے انعقاد کو متنازعہ بنا کر نہ صرف معاشرے کو بلکہ بالخصوص عورتوں کو اس سے منحرف کرتے ہیں۔

پدرسری معاشرے کی عقل سے ماورا ایک حقیقیت یہ بھی ہے کہ مرد کو خواتین کی عزت کا رکھوالا بنایا جاتا ہے جبکہ عورتوں اور لڑکیوں کو یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ گھر اور خاندان کی عزت ان کے ہاتھ میں ہے۔ غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل بھی اسی سوچ کی پیداوار ہے۔

آگاہی، شعور اور مسائل کی نشاندہی کرنے والے عورت مارچ کا انعقاد پدر سری معاشرے کے مردوں کی نہ صرف انا بلکہ مذکورہ سوچ کو بھی چیلنج کرتا ہے جس سے عام طور پر مردوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ اسی لئے عام طور پر پاکستانی مرد عورت مارچ سے خوف زدہ ہوتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ خواتین کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ یا تو یہ مارچ ہی نہ ہو اور اگر ہو تو کم سے کم خواتین اس میں شریک ہوں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں