پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے کو کچھ تنقید کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ سراہا بھی جا رہا ہے کہ وہ طلاق نامے کی موجودہ سرکاری دستاویز میں علماء کے ساتھ تفصیلی مشوروں کی روشنی میں بہتری لائے گی۔
اشتہار
اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح میں کمی کے لیے طلاق نامے کی موجودہ قانونی دستاویز میں اصلاح کی جائے۔ مجوزہ اصلاح کا مقصد کسی بھی طلاق کو فوری طور پر عمل میں آنے سے روکنے کے لیے اسے ایک ایسی عاقلانہ شکل دینا ہے، جس کی بنیاد پر اس عمل کو بہتر بناتے ہوئے اس کے مختلف مراحل میں قانونی طور پر وقفے بھی دیے جا سکیں۔
اس امر کا اعلان ابھی حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کیا تھا۔ ان کے مطابق جلد ہی اس کونسل کا ایک ایسا اجلاس بلایا جائے گا، جس میں مختلف ممالک کو علماء کو بھی مدعو کیا جائے گا تاکہ بہتر بنائے گئے طلاق نامے کو ایک ایسی دستاویز کی شکل دی جا سکے، جو ہر کسی کے لیے قابل قبول ہو۔
عائلی مقدمات کا بہت بڑا حصہ طلاق اور خلع کے تنازعات
اس معاملے میں کونسل کی طرف سے پیش قدمی کا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں طلاق اور خلع کے معاملات ہی مسلسل بڑھتے ہوئے عائلی مقدمات کا بڑا حصہ ہوتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے پاس طلاق سے متعلق اپنی کوئی قومی ڈیٹا بیس نہیں جبکہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017ء میں صرف لاہور کی مختلف عدالتوں میں طلاق اور خلع سے متعلق فیملی مقدمات کی تعداد بیس ہزار سے زائد رہی تھی۔ اسی طرح اسلام آباد میں 2017ء میں اس نوعیت کے مقدمات کی تعداد بھی چار ہزار سے زائد تھی۔
پاکستان میں انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کے مطابق فوری طور پر تین بار زبانی طلاق دے دینے کا عمل ایک امتیازی طریقہ کار ہے۔ اس عمل کے مردوں کے ہاتھوں استعمال سے نہ صرف ازدواجی رشتے میں ان پر عائد ہونے والے حقوق اور ذمے داریوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ خواتین کی زندگیوں پر بہت بڑا اختیار بھی مردوں کے ہاتھوں میں ہی رہتا ہے۔ معاشرتی طور پر تین طلاقیں بیک وقت دی جاتی ہیں اور یہ زبانی ہوتی ہیں لیکن ان کے بارے میں نہ کوئی سوال کیا جاتا ہے اور نہ ہی مرد بالعموم اپنے آپ کو معاشرتی طور پر اس طرح طلاق دینے کی وجوہات کی وضاحت کا پابند سمجھتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے اس بات کا نوٹس لینے اور یہ تجویز دینے کہ طلاق کے اس عمل کو تبدیل کیا جائے، اس پر کئی حلقوں کی طرف سے اگر مثبت ردعمل سامنے آیا ہے تو کئی دیگر حلقے اس تجویز پر تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اس متضاد ردعمل کی وجہ یہ ہے کہ شادی اور طلاق کے عمل کو محض مذہبی طور پر دیکھنے کے بجائے بہت سے سماجی طبقات اس امر کے حامی ہیں کہ اس حوالے سے معاشرتی اصلاحات براہ راست ایک سول قانونی معاملہ ہیں، جو حکومتی عمل داری میں آتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیاں ایک ’وبا‘
جنوبی ایشیا میں کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے اور بنگلہ دیش اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
شادی کی کم از کم عمر میں کمی کی تجویز
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کو ایک ’وبا‘ قرار دیتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر اس مسئلے پر فوری قابو پانے کے لیے زور دیا ہے۔ اس دوران اس تنظیم نے ڈھاکہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس تجویز کو بھی مسترد کر دے، جس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کو اٹھارہ سے کم کر کے سولہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے
بنگلہ دیش میں تقریباً تیس فیصد لڑکیوں کو ان کی پندرہویں سالگرہ سے پہلے ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔’’ اس سے پہلے کے سیلاب گھر کو بہا لے جائے شادی کر دی جائے‘‘۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی یہ رپورٹ ان میں سے چند لڑکیوں سے بات چیت کر کے مرتب کی ہے، جن کی کم عمری میں شادی کر دی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں قانونی طور پر ایسی شادیاں غیر قانونی ہیں تاہم رشوت دے کر پیدائش کی دستاویز کو باآسانی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
غربت مجبوری کا نام
بنگلہ دیش میں تواتر سے آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے بہت سے شہری غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ غربت بھی چائلڈ میرج کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ بہت سے خاندانوں میں لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یقین دلایا تھا کہ 2021ء تک پندرہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر قابو پا لیا جائے گا جبکہ 2041 ء تک اس ملک سے چائلڈ میرج ختم کر دی جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
جنسی اور جسمانی تشدد
کم عمر بچیوں کو شادی کے بعد اُن کے شوہروں کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بچیوں کو دس اور گیارہ سال کی عمر میں ہی بیاہ دیا گیا ہے۔ طبی حوالے سے اِن بچیوں کا جسم ابھی اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ وہ جنسی روابط قائم کر سکیں یا کسی بچے کو جنم دے سکیں۔ اس طرح زیادہ تر لڑکیاں صحت کے سنگین مسائل کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/M. Asad
یہ جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے
یہ مسئلہ صرف بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم عمری میں زبردستی شادیاں کرانے کا رجحان پورے جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگلی دہائی کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 140 ملین لڑکیوں کی اٹھارہ سال سے کم میں شادی کر دی جائے گی اور ان میں سے 40 فیصد شادیاں جنوبی ایشیا میں ہوں گی۔
تصویر: DW/P.M.Tewari
روایات بمقابلہ قانون
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور نیپال میں کم عمری میں شادی کرنا خلاف قانون ہے۔ لیکن زمینی حقائق ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2000ء اور 2010ء کے دوران 20 سے 24 سال کی درمیانی عمر کی تقریباً پچیس ملیین لڑکیاں ایسی تھیں، جن کی شادی اس وقت کر دی گئی تھی، جب وہ ابھی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Hatvalne
رویے میں تبدیلی
جنوبی ایشیا کے لیے یونیسف کے نائب ڈائریکٹر اسٹیفن ایڈکسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سلسلے میں لازمی طور پر مختلف سطح پر بات چیت کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ معاشرے کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے کم عمری میں شادی، زچگی کے دوران اموات اور صنفی تعصب کے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
7 تصاویر1 | 7
متاثرین بنیادی طور پر صرف عورتیں
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سرکردہ کارکن زنیرہ احمد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے کہا، ’’چونکہ طلاق کی متاثرین بنیادی طور پر عورتیں ہی ہوتی ہیں، جن کی ذہنی، جذباتی اور معاشرتی زندگی اکثر تباہ ہو جاتی ہے، اس لیے یہ بنیادی طور پر عورتوں کے حقوق کی بات ہے۔ ایسے کسی بھی اصلاحی عمل کا آغاز اور اختتام پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے، جہاں ملکی خواتین کے حقوق کا تحفظ بہتر طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کو صرف مردوں یا مذہبی حلقوں تک محدود بالکل نہ رکھا جائے۔‘‘
پارلیمان کا کردار
راولپنڈی کے ایک نجی اسکول میں گزشتہ پانچ سال سے بطور ٹیچر کام کرنے والی ثنا اختر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے سابق شوہر نے ایک معمولی سے جھگڑے پر انہیں طلاق دے دی تھی اور گھر سے نکال دیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’تب سے مجھے مردوں اور شادی کے نام سے ہی نفرت ہو گئی ہے۔ عورتوں کے حقوق پر جہاں پر چوٹ لگتی ہو، اسے قابل گرفت اور قابل سزا ہونا چاہیے۔‘‘
ثنا اختر نے بتایا، ’’پاکستان کے پدرشاہی اور مذہبی لحاظ سے قدامت پسند معاشرے میں کسی بھی ازدواجی رشتے کے استحکام میں عورت کے کردار کو ویسے بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ حقوق سے انکار کا یہ راستہ وراثت میں حصے اور بچوں کی تحویل تک جاتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام صرف کسی بھی نئے قانون کے آ جانے اور اس کے اسلامی ہونے تک محدود ہے۔ شادی اور طلاق کے قوانین اور ان سے متعلق نکاح ناموں میں کسی بھی ضروری اصلاح، ترمیم یا بہتری کی ذمے داری صرف اور صرف منتخب قانون ساز اداروں کے پاس ہونا چاہیے۔‘‘
بھارت میں خواتین کو فوری طلاق دینے کے خلاف جدو جہد جاری
03:39
قومی کمیشن برائے حقوق نسواں
ایک پرائیویٹ فرم میں بطور کوآرڈینیٹر کام کرنے والی خاتون حنا شیخ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’شادی اور طلاق کے قوانین میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔ مگر اس نئی تجویز پر عمل درآمد کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایسا قومی کمیشن برائے حقوق نسواں کی سربراہی میں کیا جائے اور اس کمیشن کو وزارت برائے انسانی حقوق اور خواتین کا بھی مکمل تعاون حاصل ہو۔‘‘
حنا شیخ کے مطابق، ’’اصلاح کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہونا چاہیے کہ کسی بھی شادی کو عورتوں کے خلاف اور صرف مردوں کی مرضی سے فوری، یکطرفہ اور بلا روک ٹوک ختم کیے جانے سے روکا جائے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قومی کمیشن برائے حقوق نسواں موجودہ عائلی قوانین مثال کے طور پر فیملی لاز آرڈینینس 1961 اور 2011ء کے ایکٹ میں ترامیم تجویز کرے۔‘‘
شادی ایک قانونی معاہدہ بھی
کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ بطور مذہب اسلام میں بھی شادی دو افراد کے درمیان ایک قانونی معاہدہ ہے، اس لیے عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نکاح نامے پر دستخطوں سے قبل اس میں درج شرائط اور ضوابط کو سمجھیں۔ یوں طلاق کے بارے میں بھی مختلف اختیارات نکاح نامے کا حصہ ہونا چاہییں۔
ان حلقوں کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر تین طلاقوں کے عمل کے خاتمے کے لیے ملکی پارلیمان نہ صرف ایک قانونی طریقہ کار پر متفق ہو بلکہ خواتین کے لیے ان کی اپنے حقوق سے آگہی کی خاطر ایک ملک گیر تشہیری مہم بھی شروع کی جائے تاکہ پاکستانی خواتین بھی خود اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔
طلاق کیسے ہو سکتی ہے؟
مشرقی ممالک کی نسبت مغربی ممالک میں طلاق کی شرح نسبتاﹰ زیادہ ہے۔ جرمنی میں ایک تہائی تو امریکا میں قریب نصف شادیوں کا انجام طلاق پر ہوتا ہے۔ دنیا کے بعض علاقوں میں طلاق کے لیے بہت عجیب قوانین ہیں۔ تفصیلات یہاں دیکھیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
شادی ٹوٹنے کی وجہ بننے والے کو جرمانہ
اس قانون میں شوہر یا بیوی کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو کوئی شادی ٹوٹنے کا ذمہ دار ہونے پر بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ نیو میکسیکو اور مِسِسپی سمیت امریکا کی سات ریاستوں میں نافذ اس قانون میں متاثرہ پارٹی کو حقائق کے ساتھ یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی وجہ سے اس کی شادی ٹوٹی۔
تصویر: Fotolia/detailblick
شرط جیتنے کے لیے شادی
شادی یوں تو کوئی ہنسی مذاق یا کھیل نہیں ہے لیکن امریکی ریاست ڈیلاویئر میں اگر آپ ایسا کر بیٹھیں تو قانون آپ کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی شخص ’’مذاق‘‘ یا ’’جوش‘‘ میں آ کر شادی کر بیٹھے تو وہ طلاق کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ ایسے کئی کیسز ہیں جن میں لوگوں نے شراب کے نشے میں دوستوں کے ساتھ بازی لگائی اور مذاق مذاق میں شادی کر لی جسے بعد میں منسوخ کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارٹنر کا ذہنی عدم توازن
نیویارک میں اگر آپ ثابت کر سکیں کہ آپ پارٹنر دماغی طور پر عدم توازن کا شکار ہے تو اس بنیاد پر آپ طلاق حاصل کر سکتے ہیں۔ شرط ہے کہ شادی کے دوران کم سے پانچ سالوں تک آپ کے پارٹنر کی ذہنی حالت خراب رہی ہو۔
تصویر: imago/Steinach
کسی اور سے شادی
آسٹریلیا کے قدیم مقامی باشندوں میں خواتین کے پاس طلاق حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے۔ اس طرح پہلی شادی منسوخ ہو جاتی ہے۔ یہ طریقہ آسان تو ہے، لیکن ظاہر ہے اگلی شادی کا ٹوٹنا بھی اتنا ہی آسان ہوگا۔
تصویر: Colourbox
طلاق غیر قانونی
فلپائن میں مسلمانوں کے علاوہ باقی لوگوں کے لیے طلاق غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ 98 فیصد کیتھولک عیسائی آبادی والے ملک مالٹا میں بھی طلاق غیر قانونی ہے۔ 1997ء سے پہلے تک بہت سے یورپی ممالک میں بھی یہی صورت حال تھی جو اب بدل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CTK/Josef Horazny
دوری اختیار کرنے سے طلاق
جب اسکیمو لوگ طلاق کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو سب سے پہلے ایک دوسرے سے الگ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح الگ رہنے کا مطلب ہی طلاق ہوتی ہے۔
تصویر: DVD-Anbieter Absolut Medien
طلاق کا جشن
نیویارک اور امریکا کے دوسرے بڑے شہروں میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو طلاق پارٹی منعقد کرتے ہیں۔ کئی بار انتہائی پرجوش اور بھڑکیلے انداز والی تو کبھی کبھار کافی پرسکون طلاق پارٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ جن میں طلاق لینے والی عورت یا مرد اپنے دوستوں اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لاس ویگاس، لاس اینجلس اور نیو یارک جیسے شہر ایسی پارٹیوں کا گڑھ ہیں۔