1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی معاشرے میں ’مذہبیت عسکریت پسندی میں اضافے کی وجہ‘

28 فروری 2021

پاکستان میں عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں میں معاشرے میں پائی جانے والی مذہبیت بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے، جو سماجی عدم برداشت کو ہوا دینے کی وجہ بنتی ہے۔

تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

اس موضوع پر اسلام آباد سے اپنے ایک تجزیے میں نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ پاکستان میں متعدد حلقوں کو اس بارے میں تشویش ہے کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو مستقبل میں مزید فروغ مل سکتا ہے۔

سندھ میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی، دو شدت پسند ہلاک

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستانی حکام زیادہ سے زیادہ اس سوچ کے قائل نظر آنے لگے ہیں کہ مذہبی سوچ کو تقویت دے کر ملکی عوام کو آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب لایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہو اس کے بالکل برعکس رہا ہے۔ کیونکہ یوں نا صرف سماجی عدم برداشت کو ہوا مل رہی ہے بلکہ طویل المدتی بنیادوں پر ملک میں عسکریت پسندی کے پنپنے کے لیے جگہ بھی بنتی جا رہی ہے۔

'ٹنل وژن‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہو یہ رہا ہے کہ زیادہ بہتر سماجی اخلاقیات اور اعلیٰ انفرادی کردار کی عملی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے مذہب کے ذریعے پاکستانی عوام کو متحد کرنے کی ذہنیت ایسی سوچ کی ترویج کر رہی ہے، جیسے کوئی انسان بس کسی بند سرنگ میں ہی دور تک دیکھ رہا ہو۔

پنجاب میں کالعدم شیعہ تنظیم کے 7 مشتبہ دہشت گرد گرفتار

تصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

طالبان لیڈروں کے ’پاکستان میں کیمپوں‘ کے دورے، کابل کو تشویش

اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے عامر رانا کہتے ہیں، ''ہم جو دیکھ رہے ہیں، وہ اسی ٹنل وژن کی حوصلہ افزائی ہے۔ لیکن اس طرح کی سوچ تشدد، عدم برداشت اور نفرت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔‘‘ ان کے مطابق، ''پاکستانی شہری ہونے کی تعریف اور اس کا مطلب اب یوں لیے جانے لگے ہیں کہ کون کتنا مذہبی ہے۔‘‘

مسلح حملوں میں حالیہ اضافہ

نیوز ایجنسی اے پی نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیاں اب بڑھنے لگی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب چار ایسی ووکیشنل اسکول انسٹرکٹرز کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا، جو خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں سرگرم تھیں۔ اس کے علاوہ بنیادی طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والی اور گزشتہ کئی برسوں سے برطانیہ میں مقیم نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کو بھی ٹوئٹر پر جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی۔

مزید یہ کہ پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں عسکریت پسندوں کے مختلف حملوں میں کم از کم ایک درجن کے قریبی فوجی اور نیم فوجی اہلکار بھی زیادہ تر ملک کے مغربی سرحدی علاقوں میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ سکیورٹی اہلکار یا تو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائیوں میں شامل تھے یا پھر ان پر شدت پسندوں نے گھات لگا کر حملے کیے۔

افغانستان میں امن کوششیں، پاکستان میں بدامنی؟

تصویر: picture-alliance/dpa

ضلع ڈیرہ غازی خان میں القاعدہ کے دو عسکریت پسند مارے گئے

پاکستانی فوج کا موقف

پاکستانی فوج کے ترجمان نے اسی ہفتے کہا تھا کہ پرتشدد واقعات میں یہ اضافہ دراصل افغانستان کی ساتھ سرحد کے قریبی علاقوں میں عسکریت پسندوں اور شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی دستوں کے زیادہ جارحانہ آپریشن کا ردعمل ہے۔

عامر رانا کے بقول پاکستان میں مذہبیت کا معاملہ مختلف پہلوؤں سے ایک منفی عملی اظہاریے کی وجہ بنا ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا، ''پاکستان میں مذہب اور مذہبیت کو باہمی برداشت کے مظہر عقائد سمیت مثبت رویوں کی ترویج کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔‘‘

امدادی تنظیم کے لیے کام کرنے والی چار خواتین فائرنگ سے ہلاک

اس تناظر میں مرکز برائے بین الاقوامی سلامتی اور تعاون کے فیلو اور سکیورٹی تجزیہ کار اسفندیار میر کہتے ہیں، ''پاکستان میں ماضی میں مختلف ذیلی گروہوں اور دھڑوں میں منقسم عسکریت پسندوں کا خود کو متحد کرنا بھی ایک منفی پیش رفت ہے اور اس طرح تحریک طالبان پاکستان سمیت ایسے عسکریت پسند گروہ مزید خطرناک ہو جائیں گے۔‘‘

م م / ع س (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں