پاکستانی حکومتی ذرائع کے مطابق چین سے ایک تا دو ارب ڈالر کے فوری قرضے حاصل کیے جا رہے ہیں، تاکہ حکومتی اخراجات اور ادائیگیوں کا چیلنج حل کیا جا سکے۔
اشتہار
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق چین سے نئے قرضوں کا حصول چین پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کا ایک اشارہ بھی ہے۔ روئٹرز نے پاکستانی حکام اور وزارت خزانہ کے عہدیداروں کے حوالے سے کہا ہےکہ جون میں ختم ہونے والے رواں مالی سال تک چین اور اس کے بینکوں کی جانب سے پاکستان کو دیے جانے والے قرضوں کا حجم پانچ ارب ڈالر کو چھونے والا ہے۔
سی پیک کے تحت کراچی سرکلر ریلوے نظام کے احیاء کا منصوبہ
پاکستانی حکومت بیس برسوں سے معطل کراچی میں لوکل ٹرینوں کے نظام کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے سی پیک کے تحت کام کا آغاز کرنے والی ہے۔ چین نے اس مد میں 1.7 بلین یورو کی سرمایہ کاری کی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
رابطے منقطع
سن 1999 میں کراچی میں سرکلر ٹرینوں کے بند ہونے کے بعد سے کراچی کے شہریوں کے لیے آمد ورفت جان کا عذاب بنا ہوا ہے۔ لوکل ٹرینیں کراچی کے مضافاتی علاقوں کے رہنے والوں کو شہر کے اقتصادی اور صنعتی زونوں سے مربوط رکھتی تھیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
افراتفری اور آلودگی
کراچی کی آبادی قریب بیس ملین ہے، اس کے باوجود وہاں کوئی مناسب ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد نہ صرف کراچی کے غیر معمولی اور بے ہنگم ٹریفک میں کمی آئے گی بلکہ موٹر گاڑیوں سے نکلتے بے پناہ دھوئیں میں بھی کمی پیدا کرے گی۔ اس طرح فضائی آلودگی میں کمی پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: picture-alliance/Asianet Pakistan/R. Ali
ریلوے کی پٹریوں پر ناجائز تجاوزات
اگرچہ تینتالیس کلو میٹر طویل کراچی سرکلر ریلوے کا بڑا حصہ اب بھی موجود ہے لیکن اس پر جا بجا غیر قانونی تعمیرات بن چکی ہیں۔ یہ ناجائز تجاوزات نہ صرف ریلوے ٹریک کے آس پاس ہیں بلکہ بعض مقامات پر پٹریوں کے اوپر بھی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
انہدام اور از سر نو تعمیر
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کراچی لوکل ٹرین سسٹم کو دوبارہ شروع کرنے سے قبل قریب 5،000 گھر اور سات ہزار دیگر تجاوزات کو گرایا جانا ضروری ہے۔ توقع ہے کہ متعدد رکاوٹوں کے باوجود اس منصوبے پر رواں برس ہی کام شروع کر دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
رہائشیوں کی جانب سے مزاحمت
اس سال اپریل میں جب حکومت نے تجاوزات گرانے کی کوشش کی تو کچی بستیوں کے رہائشیوں نے شدید احتجاج کیا۔ ایک طویل عرصے سے ریلوے لائن کے قریب بسنے والے افراد کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں اور اُنہوں نے بلڈوزروں کو بھی آگ لگائی۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’نیو سلک روڈ‘ کا حصہ
کراچی میں ریلوے سرکلر روڈ کا احیاء چین کے ’نیو سلک روڈ‘ نامی بین الاقوامی اِنی شی ایٹو پلان کا ایک حصہ ہے۔ اس کے لیے رقم پاک چین اقتصادی راہداری پروجیکٹ سے دی جائے گی۔
چین کی جانب سے پاکستان کو قرضے ایک ایسے موقع پر دیے جا رہے ہیں، جب امریکا تعلقات میں کشیدگی کے تناظر میں پاکستان کو دی جانے والی امداد میں مسلسل کٹوتی کر رہا ہے۔ رواں برس فروری میں امریکا نے دہشت گردوں کی مالی اعانت کرنے والے زیرنگرانی ممالک کی فہرست میں پاکستان کی شمولیت کے لیے کوشش کی تھی، جس پر اسلام آباد حکومت کی جانب سے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس سے ملکی اقتصادیات کو نقصان پہنچے گا۔
روئٹرز کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مئی 2017 میں 16.4 ارب ڈالر تھے، جو اب 13.3 ارب ڈالر تک گر چکے ہیں اور ایسے میں چینی قرضوں کی مدد سے اس صورت حال میں کچھ بہتری کی کوشش کی جائے گی۔
ابھی اپریل ہی میں چینی تجارتی بینکوں کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ دیا گیا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں اس تیزی سے کمی اور پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے تناظر میں مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر جولائی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ سے دوبارہ قرض لینا پڑے گا۔ سن 2013 سے اب تک پاکستان دو مرتبہ آئی ایم ایف سے ہنگامی قرضے لے چکا ہے۔
پراڈکٹ ڈیزائن کے شاہکار
یہ خواب جگاتی ہے، خوشی کا احساس دلاتی ہے اور معلومات دیتی ہے۔ کسی بھی چیز کی پیکجنگ سب سے اہم چیز ہے۔ وہ کوک ہو، نیویا یا پھر پیرسِل، بہت سے برانڈز کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اسے پیش کرنے کا طریقہ اور پیکجنگ ہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Anspach
کوکا کولا، حریفوں کا مقابلہ برانڈنگ سے
معروف ڈیزائنر ہیڈن سنڈبلوم کا ’سپرائٹ بوائے‘ 1940ء میں کوکا کولا کی جرمنی سمیت عالمی تشہیری مہم میں استعمال کیا گیا۔ ابتدائی طور پر اسے کوکا کولا کی جگہ کوک کے نام کو بطور برانڈ متعارف کرانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کا مقصد دیگر کولا بنانے والوں پر سبقت حاصل کرنا تھا۔
تصویر: Coca-Cola
رِنگلی، چیونگم کا ہم نام
جب کوئی چیونگم چاہتا ہے تو عام طور پر رنگلی ہی مانگتا ہے۔ یہ امریکی برانڈ طویل عرصے سے گم کا ہم نام ہو گیا ہے۔ رنگلی سپر منِنٹ اور رِنگلی جوسی فروٹ چیونگم کو پہلی بار 1893ء میں پہلی مرتبہ امریکی مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا۔ 1950ء کی دہائی میں یہ برانڈ جرمنی پہنچا۔
تصویر: Imago
نیلا نیلا نیلا، یہ نیویا کا ٹِن ہے
جلد کے لیے کریم کے طو پر صارفین کے ذہن میں عام طور پر نیلے رنگ کی ڈبیا میں پیک کریم کا تصور آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1911ء میں نیویا کریم بننے کے بعد سے کئی نسلیں اسے بطور برانڈ متعارف کرانے اور کامیاب کرانے میں صرف کر چکی ہیں۔
تصویر: Imago
پیرسِل، ایک معروف جرمن برانڈ
یہ دنیا کا پہلا ڈٹرجنٹ پاؤڈر تھا جو کپڑے پر رگڑے بغیر انہیں صاف کرتا ہے۔ اس برانڈ نے لاکھوں خواتین کی زندگی آسان کر دی اور تشہیری حوالے سے بھی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ یہ برانڈ ایک سو سال سے زائد پرانا ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
توبلیرونے – چاکلیٹ کا پہاڑ؟
سوئٹزرلینڈ میں اس چاکلیٹ کی فروخت پہلی بار بیرن کی مارکیٹ میں 1908ء میں شروع ہوئی۔ چاکلیٹ کے بہت سے شوقین سمجھتے ہیں کہ اس چاکلیٹ کے کوور پر دکھایا گیا پہاڑ، سوئس آلپس کی چوٹی مَیٹرہورن Matterhorn ہے جبکہ کئی دیگر کا خیال ہے کہ شاید یہ ڈانسرز کے خوبصورت کاسٹیومز سے ترتیب دیا گیا پیرامڈ ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Acierto
اسپرین ۔ برانڈ کا جادو
سر درد کی صورت میں دنیا بھر کے اربوں لوگ اسپرین کا ہی نام لیتے ہیں۔ حالانکہ اس گولی میں acetylsalicylic نامی سالٹ موجود ہے۔ اس دوائی کے برانڈ نام کے حوالے سے بائر کمپنی کے حقوق عرصہ ہوا ختم ہو چکے ہیں مگر اسپرین آج بھی اسی طرح فروخت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/OKAPIA KG
ایپل – برانڈ کی دنیا میں ایک اختراع
ایپل کو دنیا کا سب سے گراں قدر برانڈ مانا جاتا ہے۔ 2006ء سے اب تک اس کی قدر میں 859 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ آج ایپل کمپنی کی قدر 153.3 بلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ کمپیوٹرز سے لے کر آئی فون تک ایپل ایسی اختراعی مصنوعات کے حوالے سے جانا جاتا ہے جو استعمال میں نہایت آسان ہوتی ہیں۔
تصویر: Reuters
میگی – سوئٹزرلینڈ کا ایک اور کلاسک برانڈ
میگی مصالحہ دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ افریقہ کے بہت دور دراز علاقوں میں بھی آپ کو یہ پیلے لیبل والی براؤن بوتل نظر آئے گی۔ اس کمپنی کی کامیابی کی کہانی 1869ء میں شروع ہوئی۔ اس وقت میگی نیسلے کا حصہ ہے۔
تصویر: Imago
8 تصاویر1 | 8
مبصرین کے مطابق پاکستان میں فوجی اور سیاسی قیادت کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے تناظر میں ملکی مالیاتی صورت حال شدید دباؤ کا شکار ہے۔
روئٹرز نے ایک حکومتی عہدیدار سے بات چیت کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان بیجنگ حکومت کے ساتھ ’حساس بات چیت‘ میں مصروف ہے، جس کے تحت دو ارب ڈالر تک کا اضافی قرضہ پاکستان کو مل سکتا ہے۔ اس موضوع پر پاکستان یا چین کی وزارت خزانہ کی جانب سے باقاعدہ طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔