پاکستانی معیشت کی شرح نمو، آٹھ سال کی بدترین سطح پر
10 مئی 2019
ایک تازہ حکومتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کی شرح نمو گزشتہ آٹھ برس کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستانی اس بدترین مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض حاصل کر رہا ہے۔
اشتہار
ایک حکومتی رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ تمام معاشی اشارے یہ بتا رہے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب اسلام آباد حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 22 بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے، ملکی اقتصادی نمو گزشتہ آٹھ برس کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ سکتی ہے۔
نیشل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے جمعرات کے روز جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی اقتصادیات کی شرح نمو جس کے لیے چھ اعشاریہ دو فیصد کی پیش گوئی کی گئی تھی، وہ تین اعشاریہ تین فیصد رہے گی۔
ایک پاکستانی ماہر اقتصادیات مزمل اسلم کے مطابق، ’’یہ عبوری اعداد و شمار ہیں، حتمی نہیں ہیں، تاہم پاکستانی اقتصادیات میں یہ سست روی دیکھی جا سکتی ہے۔‘‘
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا ایک وفد جمعے کے روز پاکستان پہنچا ہے، جہاں وہ پاکستان کے ساتھ بیل آؤٹ پیکیج کے سلسلے میں بات چیت کر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت کو مالیاتی ادائیگوں کو جاری رکھنے کے لیے سرمایے کی فوری ضرورت ہے اور آئی ایم ایف کے اس نیے قرض سے حکومت کو اس بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ بتایا گیا ہے کہ اس ڈیل کی بابت فیصلہ آج ہی سامنے آ رہا ہے۔
کس ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں؟
آئی ایم ایف اور سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بُک کے جمع کردہ اعداد و شمار میں دنیا کے مختلف ممالک کے مرکزی مالیاتی اداروں کے پاس موجود مجموعی غیر ملکی زر مبادلہ اور سونے کے ذخائر کا تخمینہ امریکی ڈالرز میں لگایا گیا ہے۔
تصویر: FARS
1۔ چین
اس درجہ بندی میں پہلے نمبر پر چین ہے۔ دی ورلڈ فیکٹ بُک کے مطابق گزشتہ برس کے اختتام تک چین کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ اور سونے کے زخائر کی مالیت تین ہزار دو سو بلین (بتیس لاکھ ملین) امریکی ڈالر سے زائد تھی۔
تصویر: Imago/PPE
2۔ جاپان
جاپان اس فہرست میں بارہ سو چونسٹھ بلین ( یا بارہ لاکھ ملین) ڈالر مالیت کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، جو کہ چین کی نسبت بیس لاکھ ملین ڈالر کم ہے۔
تصویر: Imago/blickwinkel
3۔ سوئٹزرلینڈ
811 بلین ڈالر مالیت کے برابر غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ سوئٹزرلینڈ تیسرے نمبر پر ہے۔
اس عالمی درجہ بندی میں سعودی عرب چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس کے اختتام تک سعودی عرب کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور سونے کی مجموعی مالیت 496 بلین ڈالر کے برابر تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
5۔ تائیوان
تائیوان 456 بلین ڈالر کے برابر کی مالیت کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.B. Tongo
6۔ روس
روس چھٹے نمبر پر ہے، ورلڈ فیکٹ بُک کے مطابق گزشتہ برس کے اختتام تک روسی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت 432 بلین ڈالر تھی۔
تصویر: picture-alliance/ITAR-TASS
7۔ ہانگ کانگ
431 بلین ڈالر کی مالیت کے ذخائر کے ساتھ ہانگ کانگ ساتویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/L. Chung Ren
8۔ بھارت
بھارت بھی اس عالمی درجہ بندی میں پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ سونے سمیت بھارتی غیر ملکی زرمبادلہ کی مالیت گزشتہ برس کے آخر تک 409 بلین ڈالر کے مساوی تھی۔
تصویر: Fotolia/Mivr
9۔ جنوبی کوریا
جنوبی کوریا 389 بلین ڈالر کے برابر سونے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ساتھ نویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Choi Jae-ku
10۔ برازیل
374 بلین ڈالر کی مالیت کے غیر ملکی زرمبادلہ اور سونے کے ساتھ برازیل ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔
تصویر: Imago/Imagebroker
13۔ جرمنی
جرمنی اس اعتبار سے عالمی سطح پر تیرہویں نمبر پر ہے۔ جرمنی کے غیر ملکی زرمبادلہ اور سونے کی مالیت 200 بلین ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBroker/S. Klein
20۔ امریکا
امریکا اس فہرست میں 123 بلین ڈالر مالیت کے ذخائر کے ساتھ بیسویں نمبر پر ہے۔ امریکا کے بعد ایران کا نمبر آتا ہے جس کے غیر ملکی زرمبادلہ اور سونے کی مالیت 120 بلین ڈالر کے مساوی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
62۔ پاکستان
پاکستان اس درجہ بندی میں باسٹھویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس کے اختتام پر پاکستان کے پاس موجود غیر ملکی زرمبادلہ اور سونے کے ذخائر کی مجموعی مالیت 18.4 بلین ڈالر کے برابر تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
13 تصاویر1 | 13
ایمرجنگ اکنامکس ریسرچ نامی ادارے کے سربراہ اسلم نے بتایا، ’’ہم توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قریب ویسا ہی پیکیج ملے گا، جیسا سن 2008 میں ملا تھا۔‘‘
تب پاکستان کو سات اعشاریہ چھ ارب ڈالر پانچ برس کے لیے قرض دیے گئے تھے۔ ماہرین کا تاہم خیال ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی نئی ڈیل میں کئی طرح کی سخت شرائط ہیں، جن میں روپے کی قدر میں تیس فیصد کمی جیسا شرط بھی شامل تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان مذاکرات سے قبل ہی روپے کی قدر میں کمی کر کے اس شرط کو پورا کیا جا چکا ہے جب کہ اسی تناظر میں ملک میں افراط زر گزشتہ پانچ برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔