پاکستانی مہاجرین یورپ پہنچنے والا تیسرا بڑا گروپ بن گیا
صائمہ حیدر عاصم سلیم، انفو مائیگرینٹس
16 فروری 2018
یورپ میں مہاجرین کے حوالے سے با خبر رکھنے والے ادارے انفو مائیگرانٹس کا کہنا ہے کہ تازہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستانی تارکین وطن سیاسی پناہ کے لیے یورپ آنے والا تیسرا سب سے بڑا گروپ بن گئے ہیں۔
اشتہار
انفو مائیگرانٹس کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق رواں برس کے پہلے ماہ میں یہ پاکستانی تارکینِ وطن بُحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچے۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کی رُو سے اس مدت میں چار ہزار تارکین وطن لیبیا سے اٹلی پہنچے جن میں سے 248 یعنی قریب چھ فیصد پاکستانی تھے۔
گزشتہ برس اسی دوران صرف نو پاکستانی اس سمندری راستے کو عبور کر کے یورپ میں داخل ہو سکے تھے۔ سن 2017 میں ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب تارکین وطن شمالی افریقہ سے اٹلی پہنچے تھے جن میں 3100 پاکستانی باشندے تھے۔
اقوام متحدہ اور امدادی ادارے بُحیرہ روم کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں اس اضافے کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ بعض مہاجرین اس راستے کو ترکی کے راستے یونان تک پہنچنے کے روایتی راستے کے متبادل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ شدید سردی اور بارڈر کنٹرول بھی اس راستے کو استعمال کرنے کی وجوہات بنے ہیں۔
عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے فلیویو دی گیوکومو کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ اٹلی پہنچنے والے چند مہاجرین کو غالباﹰ یونان کے مہاجر کیمپوں سے نکال کر واپس ترکی بھیج دیا گیا تھا۔ یہ تارکین وطن اب سوڈان سے براستہ لیبیا یورپ کے راستے تلاش کرتے ہیں۔
ایک پاکستانی صحافی شاہد ایس کا کہنا ہے کہ لیبیا کے راستے یورپ جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کی تعداد میں اضافے کی وجوہات کی وضاحت مشکل ہے۔ شاہد کے مطابق شام اور عراق میں سلامتی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور اسی لیے وہاں سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے۔
تاہم شاہد ایس کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک سے یورپ کی جانب مہاجرین کے بہاؤ کی کئی ایک وجوہات ہیں اور اس بہاؤ کو اس وقت تک کم نہیں کیا جا سکتا جب تک ان ممالک میں لوگوں کو کام کرنے کے خاطر خواہ مواقع اور بہتر سیکیورٹی میسر نہ ہو۔
یورپ کی طرف مہاجرت کے رحجانات ہمیشہ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ امسال یکم جنوری سے نو فروری کے درمیان 7865 تارکین وطن یورپ آئے۔ اس مدت میں وسطی بحیرہ روم کا روٹ ہی مہاجرین کے نزدیک ترجیحی رہا اور ایک ماہ نو دن میں 4733 مہاجرین اس راستے اٹلی پہنچے۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔