پاکستانی مہاجرین کے اسمگلر پر یونانی پولیس کی فائرنگ
عاطف توقیر
14 نومبر 2017
یونانی پولیس نے ملک کے شمالی حصے میں دس پاکستانیوں کو اسمگل کرنے کی کوشش کرنے والے انسانوں کے ایک مشتبہ اسمگلر کو گولی مار دی ہے۔
اشتہار
حکام کے مطابق یہ اسمگلر دس پاکستانی تارکین وطن کو ایک وین کے ذریعے اسمگل کرنے کی کوشش میں تھا اور پولیس کی جانب سے رکنے کے اشارے نظرانداز کرنے پر اس پر فائرنگ کی گئی۔ حکام کے مطابق ہائی وے پر اس وین کا پیچھا کیا گیا اور بلآخر یہ وین ایک حادثے کا شکار ہو کر رکی۔
پولیس کے مطابق وین کا ڈرائیور ایک 22 سالہ ملزم تھا، جو پیر کے روز 10 پاکستانی تارکین وطن کو گاڑی میں سوار کر کے لے جا رہا تھا۔ پولیس کے مطابق اہلکاروں کی جانب سے رکنے کے اشارے نظر انداز کرنے پر گاڑی کا پیچھا کیا گیا اور پھر موٹر وے پر یہ گاڑی حادثے کا شکار ہو گئی۔
پولیس بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس ملزم کی جانب سے اہلکاروں پر حملے اور ہینڈگن پکڑنے کی کوشش کے دوران اس پر گولی چلائی گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس دوران اس ملزم کے بازو اور کولہے پر گولی لگی ہے اور اسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس واقعے میں چند تارکین وطن کو معمولی چوٹیں بھی آئی ہیں۔
بلغراد میں پرانی بیرکیں، جو پاکستانی مہاجرین کا گھر بنیں
برطانوی فوٹو گرافر ایڈورڈ کرا فورڈ نے کئی ماہ تک سربیا کے کیمپوں میں وہاں قیام پذیر تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کو عکس بند کیا۔ آئیے ڈالتے ہیں سربیا میں مہاجرین کی حالت زار پر ایک نظر کرا فورڈ کی ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: Edward Crawford
امید کی کرن
بلغراد میں ان بیرکوں نے گزشتہ ماہ خالی کیے جانے سے قبل قریب بارہ سو مہاجرین کو پناہ دے رکھی تھی۔ کرا فورڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب میں وہاں اس بحران کی تصویری کَور یج کر رہا تھا، میں نے سینکڑوں پناہ گزینوں سے بات کی۔ تمام پناہ گزینوں کا ایک ہی مقصد تھا یورپ میں ایک بہتر زندگی کی تلاش۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر
یہ بیرکیں ایسے افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر رہی ہیں جنہوں نے اپنے ممالک میں غربت اور دہشت گردی سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ کرافورڈ نے واضح کیا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال اُس وقت زیادہ خراب ہوئی جب مغربی افواج واپس چلی گئیں اور طالبان نے ملک میں اُن کے حامیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
تصویر: Edward Crawford
ہمدردی کی تلاش
رواں برس کے آغاز میں یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کو جس مشکل کا سب سے پہلے سامنا کرنا پڑا وہ شدید سردیاں اور پھر موسم بہار کی سرد ہوائیں تھیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملے ان سرمئی کمبلوں نے سردی سے بچاؤ میں ان پناہ گزینوں کی مدد کی۔
تصویر: Edward Crawford
سرمئی کمبل
کرافورڈ نے کہا، ’’بیرکوں میں ہر طرف بے شمار کمبل دکھائی دیتے تھے۔ مہاجرین ان کے ڈھیر پر سوتے اور انہی کو گرم کوٹ کی طرح بھی استعمال کرتے تھے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے شخص کے لیے کمبل کا استعمال ناگزیر تھا۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
مہاجرت کے بحران کی علامت
یہ سرمئی کمبل جن کے بغیر مہاجرین کے لیے یورپ کی شدید کو برداشت کرنا شاید ممکن نہ ہو تا، نہ صرف مہاجرین کے بحران کی علامت بنے بلکہ ان تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کا اہم جزو بھی بن گئے۔ اس تصویر میں ایک شخص پانی گرم کرتا اور ایک دوسرے مہاجر کے سر پر ڈالتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرا ہاتھ میں صابن جبکہ تیسرا بال خشک کرنے کی غرض سے کمبل ہاتھ میں لیے تیار کھڑا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
چھوڑا ہوا کمبل
یوں تو مہاجرین سربیا میں جہاں کہیں جائیں، سرمئی کمبل اِن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ تارکین وطن اس لیے انہیں کسی جگہ چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اُن کی چلنے کی رفتار متاثر نہ ہو۔ کرافورڈ نے بتایا کہ اس کمبل کا مالک اسے ٹرین میں چھلانگ لگاتے وقت ریلوے ٹریک پر چھوڑ گیا تھا۔
تصویر: Edward Crawford
ہیلو امی، میں خیریت سے ہوں
سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورپ آنے والے چالیس فیصد مہاجرین بچے اور نو عمر افراد ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا ایک نوجوان مہاجر ہے جو اپنی ماں کو فون پر اپنی خیریت کی اطلاع دے رہا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
بہتر صورت حال
کرافورڈ کے بقول اگرچہ بیرکوں میں گنجائش سے زیادہ افراد تھے اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی اچھی نہیں تھی، اس کے باوجود یہ سربیا کے دوسرے مہاجر کیمپوں کے مقابلے میں بہتر تھا۔
تصویر: Edward Crawford
یورپی یونین پر تنقید
کرافورڈ کے نزدیک اگرچہ صورت حال قدرے مستحکم ہے تاہم وہ بحران کے حوالے سے یورپی یونین کے رویے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ سربیا کو کہیں زیادہ فنڈز ملنے چاہئیں تاکہ یہاں مہاجرین کے لیے بہتر ماحول میں کیمپ بنائے جا سکیں۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
رویے کی شکایت کے بجائے تعلیم
کرافورڈ کا کہنا ہے کہ یورپ میں قانونی طور پر مہاجرین کے داخلے کے لیے پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے۔ لیکن خود مہاجرین صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ اُن کے رویے کی شکایت کرنے کے بجائے اُنہیں تعلیم دی جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہاں کیا قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔
تصویر: Edward Crawford
10 تصاویر1 | 10
حالیہ کچھ عرصے میں ایک مرتبہ پھر ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کسی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء کے وسط میں ترکی سے سمندری راستوں کے ذریعے قریب ایک ملین تارکین وطن چند ہی ماہ میں یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے۔
مہاجرین کے اسی بہاؤ کی روک تھام کے لیے یورپی یونین اور ترکی کے درمیان مارچ 2016 میں معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت انقرہ حکومت کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے مہاجرین کو بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یورپ پہنچنے سے روکے۔ اس کے عوض ترکی کی مالی اعانت کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات کے وعدے کیے گئے تھے۔
پاکستان محفوظ ملک نہیں، پاکستانی مہاجر
02:22
اس معاہدے کے بعد اس راستے سے یورپ پہنچنے والی تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی تھی، تاہم حکام کے مطابق اب پھر تارکین وطن اسی راستے کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔