پاکستانی میڈیا پر فوج کا ’خاموش کنٹرول‘، سی جے پی کی رپورٹ
13 ستمبر 2018
صحافیوں کے امور پر نظر رکھنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آزادیء صحافت دباؤ کا شکار ہے۔ اس کی وجہ طاقتور ملکی فوج کی جانب سے صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا اور بعض اوقات تشدد کرنا بتائی گئی ہے۔
اشتہار
کمیٹی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کا سب سے با اثر ادارہ یعنی فوج، خاموشی کے ساتھ تاہم موثر طریقے سے رپورٹنگ پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے صحافیوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور سے ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سینیئر ایڈیٹروں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ آج پاکستان میں آزاد صحافت کی صورت حال بالکل ویسی ہی ہے جیسے ملٹری حکومتوں کے ادوار میں ہوا کرتی تھی جب صحافیوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے اور اخبارات کو جبراﹰ بند کیا جاتا تھا۔
رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اگرچہ صحافیوں کی ہلاکت کے واقعات میں کمی تو واقع ہوئی ہے تاہم گزشتہ ایک عشرے میں قتل ہونے والے بائیس میں سے نصف صحافیوں کی ہلاکتوں کو ملکی آرمی، خفیہ اداروں یا پھر فوج سے وابستہ تنظیموں سے منسلک کیا گیا ہے۔
تاہم اس رپورٹ میں صحافیوں کی ہلاکت میں کمی کو انہیں ڈرائے دھمکانے جانے اور تشدد کیے جانے کے واقعات سے جوڑا گیا ہے۔
ایک ایڈووکیسی گروپ کا کہنا ہے کہ حساس موضوعات کو زیادہ محتاط طریقے سے کَور کرنا اور بنیادی طور پر سیلف سینسر شپ عائد کرنا صحافیوں پر تشدد میں کمی کا اسباب ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی یہ رپورٹ ایسے متعدد صحافیوں کے خیالات کی ترجمانی کرتی ہے جن کا کہنا ہے کہ انہیں دی جانے والی دھمکیوں کے نتیجے میں وہ حساس موضوعات پر آزادی سے بات نہیں کرتے۔
سی پی جے کے مطابق ایسے ہی ایک صحافی کو دارالحکومت اسلام آباد میں ایک حملے میں بری طرح مارا گیا تھا۔ کراچی میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے ایک اور صحافی کا کہنا ہے کہ اسے مارنے والے افراد عام شہریوں کے بھیس میں سیکیورٹی فورسز کے ارکان تھے۔
رپورٹ میں ایسے ہی ایک جرنلسٹ کے حوالے سے لکھا ہے،’’ فوج کا مائنڈ سیٹ ایسا بن چکا ہے کہ اجتماعی بیانیے کو کنٹرول کیا جائے اور آراء کے تنوع کو محدود کر دیا جائے۔ ہم سمجھتے تھےکہ جو ہمیں ٹھیک لگتا ہے بس وہ لکھنا چاہیے۔ لیکن اب لوگ خوفزدہ ہیں۔‘‘
سی جے پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے بعض صحافیوں کے نزدیک توہین رسالت کا الزام ، جسے پاکستان جیسے قدامت پسند ملک میں کسی پر بھی عائد کر کے اس کی موت کا سبب بنایا جا سکتا ہے، اب صحافیوں کو ڈرانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے پاکستانی آرمی کی رائے لینی کی کوشش کی گئی لیکن اس کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ خیال رہے کہ پاکستان کی فوج ایک طویل عرصے سے اس قسم کے الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے۔
ص ح / ع ب / نیوز ایجنسی
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔