پاکستانی میڈیا کے کردار سے عوام نالاں
24 مئی 2012پاکستان میں نجی ٹی وی چینل مسابقت کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے لیے ایسے منفرد اور اچھوتے پروگرام پیش کر رہے ہیں جن سے ناظرین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنی جانب مائل کیا جا سکے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسی طرح کی کوششوں کے نتیجے میں ’نگران صحافت‘ کا تصور بھی فروغ پا رہا ہے جس میں میڈیا معاشرے کو مبینہ طور پر سدھارنے کے لیے نگران بننے کا کردار اپناتا جا رہا ہے۔
اس طرح کے پروگراموں کے نتیجے میں اکثر عام افراد کی نجی زندگیوں میں غیر ضروری مداخلت کی جاتی ہے۔
رواں برس جنوری میں نجی چینل سماء ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ایک مارننگ شو میں میزبان مایا خان نے ایک پارک میں گھومنے والے جوڑوں کا تعاقب کر کے ان پر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ مایا خان ٹی وی کیمرہ مینوں کے ہمراہ ان جوڑوں کا تعاقب کرتی رہیں جن میں سے اکثر وہاں سے فرار ہو گئے۔ تاہم ایک جوڑے کو انہوں نے جا لیا اور اُس پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
اس پروگرام پر مختلف حلقوں کی جانب سے سخت نکتہ چینی کی گئی اور اُسے شتر بے مہار میڈیا کی جانب سے عوامی زندگی میں بلا ضرورت دخل اندازی قرار دیا گیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بُک اور ٹویٹر پر پانچ ہزار افراد نے اپنے ناموں سے پٹیشن میں سماء ٹی وی پر زور دیا کہ وہ مایا خان کو برطرف کرے۔
پاکستان کے اعتدال پسند حلقوں نے مایا خان کو برطرف کرنے کے فیصلے کی تعریف کی مگر اس وقت ان کی خوشیوں پر اوس پڑ گئی جب اے آر وائے ٹی وی چینل نے اُسے مارننگ شو کے لیے رکھ لیا۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر مہناز رحمٰن کے بقول یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس سے سماجی توازن کو خطرہ درپیش ہے۔ انہوں نے کہا: ’یہ صحافت نہیں ہے بلکہ خالص نگرانی ہے۔ یہ چیز عوام کے لیے بہتر نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کو اپنا کردار ذمہ داری سے اور تجارتی سوچ سے ہٹ کر ادا کرنا چاہیے۔
ایک ہیلتھ لیبارٹری میں کام کرنے والے غلام حیدر نے بتایا کہ دو مرتبہ دو مختلف چینلوں کے رپورٹر ان کی لیبارٹری میں آن دھمکے اور زبردستی اندر کی فلم بنانے پر اصرار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا: ’وہ آزادی ء صحافت کے نام پر انتہائی بے دھڑک طریقے سے اور بے رحمی سے ہم پر حملے کرتے ہیں۔ انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ہر جگہ جا گھستے ہیں۔‘
ڈان نیوز پر سیاسی شو کرنے والے طلعت حسین کا کہنا ہے کہ اگر میڈیا نے لوگوں کی نجی زندگیوں میں دخل اندازی اسی طرح جاری رکھی تو مارکیٹ ان کے خلاف ہو جائے گی۔
اس وقت پاکستان میں 80 سے زائد ٹی وی چینل ہیں جن میں سے نصف چوبیس گھنٹے پانچ زبانوں میں نشریات پیش کر رہے ہیں۔
(hk/aba (AFP