پاکستانی وزير قانون مستعفی، دھرنا ختم
27 نومبر 2017اسلامی سياسی جماعت تحريک لبيک يا رسول اللہ پاکستان کے سربراہ خادم حسين رضوی نے آج صبح يعنی پير ستائيس نومبر کو قريب تين ہفتوں سے جاری دھرنا ختم کرنے کے احکامات جاری کر ديے ہيں۔ يہ پيش رفت پاکستانی وزير قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد سامنے آئی، جو کہ احتجاج کرنے والے اس جماعت کے حاميوں کا مرکزی مطالبہ تھا۔ اس موقع پر رضوی نے اپنے قريب ڈھائی ہزار حاميوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’آرمی چيف کی يقين دہانی پر ہم دھرنا ختم کر رہے ہيں۔‘‘
تحريک لبيک يا رسول اللہ پاکستان کے ہزاروں حاميوں نے اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والی ايک مرکزی شاہراہ پر چھ نومبر سے ڈھرنا ڈالا ہوا تھا۔ ان کے احتجاج کی وجہ ارکان پارليمان کی حلف برداری کے ليے استعمال ہونے والے مسودے ميں ايک ترميم بنی، جسے احمدی کميونٹی کے ليے موقف ميں نرمی کے طور پر ديکھا گيا۔ پاکستان ميں 1974ء ميں احمديوں کو غير مسلم قرار دے ديا گيا تھا۔ اگرچہ ترميم کو غلطی قرار ديتے ہوئے فوراً تبديل کر ديا گيا تھا تاہم اس تحريک کے حامی پيش رفت کو ’گستاخی پيغمبر‘ سے تعبير کرتے ہوئے پر اصرار تھے کہ وزير قانون استعفی ديں۔ دھرنے کے سبب روز مرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی تھی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد بالآخر حکومت نے ہفتے کی صبح اس کے خلاف باقاعدہ آپريشن شروع کيا۔ اس دوران کم از کم سات افراد ہلاک اور دو سو کے قريب زخمی ہو گئے جبکہ پاکستان کے نو مختلف شہروں ميں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ پھر اتوار کو حالات مقابلتاً بہتر رہے اور وزير اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چيف جنرل قمر جاويد باجوہ کے درميان ملاقات بھی ہوئی۔
ملکی و غير ملکی ذرائع ابلاغ پر آج پير کو نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق زاہد حامد نے ملک کو اس بحران سے نکالنے کے ليے اپنا استعفی وزير اعظم عباسی کو دے ديا ہے۔ سرکاری ٹيلی وژن پر بھی يہ خبريں نشر کی جا چکی ہيں، گو کہ حکومت نے براہ راست اس کی تصديق نہيں کی ہے۔
پاکستان ميں آئندہ برس عام انتخابات ہونے والے ہيں۔ پاکستان مسلم ليگ نواز گروپ کے ليے زاہد حامد کا استعفی ايک اور دھچکا ہے۔ بد عنوانی کے الزامات پر جولائی ميں اس جماعت کے رہنما نواز شريف کو وزارتِ عظمی کے عہدے سے عدالتی احکامات پر برطرف کر ديا گيا تھا۔ کئی حلقوں ميں اسے فوجی اسٹيبلشمنٹ اور سويلين حکومت کے مابين تازہ تناؤ سے تعبير کيا جاتا ہے۔