پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اکیس جولائی کو امریکا کا دورہ شروع کريں گے۔ وزرات عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان کا یہ امریکا کا پہلا دورہ ہے۔
اشتہار
حال ہی میں ہيوسٹن ميں تعينات پاکستانی کونسل جنرل عائشہ فاروقی کی رہائش گاہ پر وزير اعظم کے معاون خصوصی برائے اوور سيز پاکستانیز زلفی بخاری نے عمران خان کے دورے کے سلسلے میں امریکا میں آباد پاکستانی بزنس کميونٹی کی توقعات پر ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کی۔ اس موقع پر پاکستانی امريکی تاجر برادری کے ارکان بھی وہاں موجود تھے۔ زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ امريکا ميں مقيم پاکستانيوں کی پاکستان ميں سرمايہ کاری کے عمل کو آسان بنانا وزير اعظم کے ايجنڈے کا اہم جزو ہے۔ اس سلسلے ميں اسلام آباد حکومت نے بورڈ آف انويسٹمنٹ تشکيل ديا ہے، جو سرمايہ کاروں کے تمام مسائل نہايت تيز رفتاری سے حل کرے گا۔ ان کے بقول، ’’ہم چاہتے ہيں کے اوور سيز پاکستانيوں کے ليے يہ عمل نہايت ہی آسان ہو جائے۔‘‘
اپنی گفتگو میں زلفی بخاری نے واشنگٹن ميں وزير اعظم کے پاکستانی نژاد امريکی باشندوں سے خطاب اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ميٹنگ کو نہايت اہم قرار دیا۔ زلفی بخاری اس وقت واشنگٹن ڈی سی ميں وزير اعظم کے امريکی دورے کے نگران کے فرائز بھی انجام دے رہے ہيں۔
وزير اعظم عمران حان کے دورہ امريکا کے چيف آرگنائز اور سکريٹری آفس آف انٹرنيشنل چيپٹرز، امريکا سے وابستہ ڈاکٹر عبد اللہ رياڑ نے واشنگٹن ڈی سی سے ڈی ڈبليو سے خصوصی بات چيت کی۔ انہوں نے کہا، ’’امريکا ميں مقيم پاکستانيوں نے وزير اعظم کے اس دورے کا خير مقدم کيا ہے۔ تمام پاکستانی وائٹ ہاوس سے کچھ ہی فاصلے پر منعقد ہونے والے اس جلسے کے بے چينی سے منتظر ہيں۔ اس تاريخی جلسے سے پاکستانی نژاد امريکيوں کی بہت سی اميديں وابستہ ہيں۔ وہ اپنے ليڈر کو ديکھنے کے ليے بے چين ہيں۔‘‘
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے اس جلسے کے دوران اپوزيشن کے مظاہروں کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اس بارے میں کیے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا، ’’ہم ايک آزاد معاشرے ميں رہتے ہيں اور ہر ايک کو آزادی رائے کا حق ہے۔‘‘
وزير اعظم کے دورے پر امريکا کی رياست ٹيکساس ميں بھی پاکستانی امريکيوں ميں نہايت گہما گہمی پائی جاتی ہے۔ اس دورے سے جڑی ٹيکساس کی آرگنائيزنگ کميٹی کے ليڈر اور سابق صدر پی ٹی آئی، امريکا نديم زمان نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’وزير اعظم کے اس دورے سے پاکستان اور امريکا کے سفارتی تعلقات بہت مضبوط ہوں گے۔ ہر پاکستانی نژاد امريکی کی دونوں ملکوں کے ليے نيک خواہشات ہيں۔‘‘ ان کے مطابق چار ہزار لوگ اس جلسے ميں شرکت کے ليے خود کو رجسٹر کر چکے ہيں۔ انہوں نے يہ بھی بتايا کہ وزير اعظم پاکستانی نژاد امريکی تاجروں سے پاکستان ميں تجارت کے مواقع اور معيشت کی بحالی ميں ان کے کردار پر خصوصی ميٹنگ کريں گے۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔