1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ٹیم نے کے۔ ٹُو سر کر لی

ندیم گِل27 جولائی 2014

پاکستانی کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K2 سر کر لی ہے۔ کسی پاکستانی ٹیم کی یہ پہلی کامیابی ہے جو اس چوٹی کو پہلی مرتبہ سر کیے جانے کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر سامنے آئی ہے۔

تصویر: Buddhabir RAI/AFP/Getty Images

کوہ پیمائی کی مہمات سے متعلق ایک کمپنی نذیر صابر ایکسپیڈینشنز کے گائیڈ سرور علی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’’چھ رُکنی ٹیم آج پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق رات دو بج کر بائیس منٹ (جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب)پر چوٹی پر پہنچ گئی۔‘‘

پاکستان ٹور آپریٹرز ایسوسی ایشن (پی اے ٹی او) کے صدر امجد ایوب نے بھی پاکستانی ٹیم کی جانب سے کے ٹو سر کیے جانے کی تصدیق کی۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستانی کوہ پیماہ اضافی آکیسجن استعمال کیے بغیر چوٹی پر پہنچے۔

امجد ایوب نے بتایا کہ گلگت۔بلتستان کے چھ کوہ پیما کے۔ٹو سر کرنے کی مہم میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کوہ پیماؤں میں حسن جان، علی دُرانی، رحمت اللہ بیگ، غلام مہدی، علی اور محمد صادق شامل ہیں۔ تین اطالوی کوہ پیما بھی اس گروپ کا حصہ تھے۔

دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے برعکس کے۔ٹُو کو بہت کم کوہ پیماؤں نے سر کیا ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو تقریباﹰ ساڑھے تین ہزار مرتبہ سر کیا جا چکا ہے جبکہ کے۔ٹو پر پہنچنے والوں کی تعداد تقریباﹰ تین سو ہے۔ یہ چوٹی سر کرنے کی کوشش میں بہت سے کوہ پیماہ جان سے گئے ہیں۔ یہ چوٹی پہلی مرتبہ ساٹھ برس قبل فتح کی گئی تھی۔ اس کی بلندی آٹھ ہزار 611 میٹر ہے اور یہ پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پاکستانی کوہ پیماہ انفرادی حیثیت سے پہلے بھی یہ چوٹی سر کر چکے ہیں تاہم کسی پاکستانی ٹیم کا یہ پہلا کارنامہ ہے۔ اس مہم کو گلگت۔بلتستان کی حکومت اور اطالوی تنظیم Ev-k2CNR نے اسپانسر کیا تھا جو اکتیس جولائی 1954ء کو اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے پہلی کامیاب مہم کی یاد میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت اسے اٹلی کے کوہ پیماؤں نے سر کیا تھا۔

گلگت۔بلتستان کی وزیر اطلاعات سعدیہ دانش کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی خطے میں سیاحت کی بحالی کی جانب پہلا قدم ہے۔ انہوں نے کہا: ’’گزشتہ برس نانگا پربت کے بیس کیمپ پر ہونے والی ہلاکتوں کے باعث مقامی سیاحت کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا تھا، یہ کامیابی اس کی بحالی میں مددگار ثابت ہو گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’گزشتہ برس کی ہلاکتوں کی وجہ سے جن سیاحوں نے گلگت۔بلتستان کو اپنی فہرست سے نکال دیا تھا اب وہ اسے پھر سے شامل کر لیں گے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں