پاکستانی ٹیم پندرہ اکتوبر کو بھارت کے خلاف میچ کھیلے گی
27 جون 2023
بھارت سات برس کے وقفے کے بعد اکتوبر میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی میزبانی کرے گا۔ بھارت اور پاکستان احمد آباد میں ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتریں گے۔
اشتہار
بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے کئی ہفتوں کی تاخیر کے بعد اس سال کھیلے جانے والے ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔
آئی سی سی ورلڈ کپ پانچ اکتوبر سے 19 نومبر تک بھارت میں کھیلا جانا ہے۔ اس ٹورنامنٹ کا افتتاحی میچ پانچ اکتوبر کو انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہو گا۔ سیمی فائنل 15 اور 16 نومبر کو ممبئی اور کولکتہ میں کھیلے جانا ہیں۔ روایتی حریف ممالک بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں 15 اکتوبر کو احمد آباد میں میچ کھیلیں گی۔
بھارت میں کھیلے جانے والے آئی سی سی ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کا شیڈول کئی ہفتوں کی تاخیر کا شکار ہوا، جس کی وجہ پاکستانی ٹیم کی طرف سے بھارت میں جا کر میچز کھیلنے سے انکار تھا۔ یہ انکار بھارتی کرکٹ کونسل کے اس فیصلے کا ردعمل تھا کہ بھارتی ٹیم پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے ایشیا کپ کے میچ پاکستان میں جا کر نہیں کھیلے گی۔
بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی کوششوں سے آخر کار یہ طے پایا کہ پاکستان ایک ہائبرڈ ماڈل کے تحت ستمبر میں کھیلے جانے والے ایشیا کپ کی میزبانی کرے گا۔
آئی سی سی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ’’ہر ٹیم دیگر نو ٹیموں کے خلاف راؤنڈ رابن فارمیٹ کے تحت میچز کھیلے گی اور چار سرفہرست ٹیمیں ناک آؤٹ اور سیمی فائنلز کے لیے کوالیفائی کریں گی۔‘‘
روایتی حریف ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل عرصے سے جاری سیاسی تنازعات سے کرکٹ کا میدان بھی محفوظ نہیں اور یہ دونوں ٹیمیں بین الاقوامی ٹورنامنٹس کے میچ بھی اکثر کسی تیسرے ملک میں ہی کھیلتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان کھیلا جانے والا کوئی بھی میچ بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی دلچسپی کا حامل ہوتا ہے اور کرکٹ کے شائقین ٹیلی وژن اسکرینز سے چمٹ کر رہ جاتے ہیں۔
بلے بازوں کے چھکے چھڑا دینے والے گیند باز
کرکٹ کی دنیا میں سن 1990 کے دہائی سے لے کر اب تک سینکڑوں گیند بازوں نے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی۔ تاہم ان میں چند ہی ایسے باؤلر تھے جو حریف بلے بازوں کے اعصاب پر سوار ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
وسیم اکرم (1984 تا 2003)
چھوٹے رن اپ کے ساتھ بائیں بازو سے تیز رفتار سوئنگ باؤلنگ کرنے والے وسیم اکرم کو خطرناک ترین باؤلرز میں سرفہرست کہنا غلط نہ ہو گا۔ دو دہائیوں پر مبنی اپنے کیریئر میں انہوں نے انتہائی ماہر بلے بازوں کے ناک میں بھی دم کیے رکھا۔ وسیم ایک روزہ میچوں میں پانچ سو وکٹیں لینے والے واحد تیز گیند باز ہیں۔ انہوں نے ایک روزہ میچوں میں بھی 414 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tallis
وقار یونس (1989 تا 2003)
وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی بھی خطرناک ترین باؤلرز میں شمار کی جاتی تھی۔ وقار یونس وکٹوں کی دوڑ میں وسیم اکرم سے پیچھے رہے۔ ان کے تیز رفتار اِن کٹرز خاص طور پر دائیں بازوں سے بیٹنگ کرنے والے بلے بازوں کی وکٹیں اڑا دیا کرتے تھے۔ وقار یونس نے بین الاقوامی ٹیسٹ میچوں میں 373 اور ایک روز میچوں میں 416 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
کرٹلی ایمبروز (1988 تا 2000)
سن نوے کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے کرٹلی ایمبروز اور کرٹنی واش کی جوڑی مخالف ٹیم کے بلے بازوں کو ناکوں چنے چبوانے میں شہرت رکھتی تھی۔ ایمبروز نے واش کے مقابلے میں وکٹیں تو کم حاصل کیں لیکن ان کا بلے بازوں پر دبدبہ کہیں زیادہ رہتا تھا۔ چھ فٹ سات انچ قد والے دراز قامت باؤلر کا شمار اپنے وقت کے خطرناک ترین گیند بازوں میں ہوتا تھا۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شین وارن (1992 تا 2007)
آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن بلے بازوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوتے تھے۔ شین وارن کو نہ صرف ہاتھ میں پکڑی گیند کو سپن کرنے میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ اپنے سامنے کھڑے بلے باز کے اعصاب پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ بلے باز کے دماغ کو پڑھ لینے کی صلاحیت انہیں مزید خطرناک بنا دیتی تھی۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں 708 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: dapd
متھیا مرلی دھرن (1992 تا 2011)
سری لنکن اسپنر ٹیسٹ اور ون ڈے میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے صرف زیادہ وکٹیں ہی نہیں حاصل کیں، بلکہ بلے بازوں پر ان کا رعب بھی بہت تھا۔ دنیا کے ماہر ترین بلے باز بھی ان کی انوکھی آف اسپن باؤلنگ کا مقابلہ کرتے وقت چوکس ہو جاتے تھے۔ مرلی دھرن نے اپنے کیریئر کے دوران ٹیسٹ میچوں میں 800 اور ون ڈے میں 534 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
گلین میک گَرا (1993 تا 2007)
عالمی سطح پر تیز گیند بازی میں لائن اور لینتھ کے اعتبار سے میک گرا کا شاید ہی کوئی دوسرا باؤلر مقابلہ کر پائے۔ بلے بازوں کو باندھ کر رکھنے والے آسٹریلوی گیند باز نے ٹیسٹ میچوں میں 563 اور ون ڈے میچوں میں 381 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
انیل کمبلے (1990 تا 2008)
بھارتی لیگ اسپنر انیل کمبلے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران ایسے واحد باؤلر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ثقلین مشتاق (1995 تا 2004)
عالمی کرکٹ میں ون ڈے میچ کے آخری اوورز میں اسپن باؤلنگ کرانے اور ’دوسرا‘ متعارف کرانے والے پاکستان آف سپنر ثقلین مشتاق ہی ہیں۔ ثقلین 200 ون ڈے وکٹیں حاصل کرنے والے کم عمر ترین گیند باز بھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شان پولک (1995 تا 2008)
جنوی افریقہ کے شان پولک نے کئی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیے رکھا۔ ان کی رفتار بہت تیز نہیں تھی لیکن عمدہ لائن اور لینتھ اور اس میں بھی ایک خاص تسلسل، ان کی کامیابی کا راز رہا۔ پولک نے ٹیسٹ میچوں میں 421 اور ون ڈے میں 393 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Imago Images/Colorsport
شعیب اختر (1998 تا 2011)
پاکستانی گیند باز شعیب اختر کی انتہائی تیز رفتار باؤلنگ نے انہیں ایک انتہائی خطرناک باؤلر بنایا۔ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے باؤنسرز اور یارکرز ان کے سامنے کھڑے بلے بازوں پر ہیبت طاری کر دیتے تھے۔ شعیب اختر کا سامنا کرتے وقت ساروو گنگولی، برائن لارا اور گیری کرسٹن جیسے بلے باز بھی پریشان دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kodikara
لاسیت ملنگا (2004 سے اب تک)
سری لنکا کے تیز گیند باز لاسیت ملنگا نے اپنے کیریئر کے شروع ہی میں منفرد باؤلنگ ایکشن اور تیز رفتار یارکرز کے ساتھ بلے بازوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ ملنگا اب بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن ان کی رفتار کچھ کم پڑ چکی ہے۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر وکٹیں سن 2007 اور سن 2014 کے درمیان حاصل کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/empics/PA-Wire/S. Cooper
جسپرت بمرا (2016 سے اب تک)
بھارتی گیند باز جسپرت بمرا گزشتہ چند برسوں کے دوران ایک خطرناک باؤلر بن کر ابھرے ہیں۔ گیند کی رفتار میں غیر معمولی انداز میں تغیر اور انتہائی درست یارکرز کے باعث بمرا خاص طور ڈیتھ اوورز میں انتہائی خطرناک باؤلر ہیں۔ بمرا 60 ون ڈے میچوں میں سو وکٹیں اور درجن بھر ٹیسٹ میچوں میں بھی 60 سے زائد وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Dennis
12 تصاویر1 | 12
2019ء میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے میچ کو 273 ملین ناظرین نے دیکھا تھا۔
پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیوں نے 2012ء کے بعد سے ایک دوسرے کے ملک میں کوئی باہمی سیریز بھی نہیں کھیلی۔