1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پارلیمان اور عدلیہ آمنے سامنے، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

13 اپریل 2023

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کا سیاسی منظر نامہ عجلت میں کی گئی قانون سازی، عدالتی مداخلت ، سیاسی جماعتوں کے باہمی تنازعات اور عدام استحکام سے عبارت ہے جبکہ اس صورتحال میں فوری طور پر کسی بہتری کے آثار نہیں۔

Pakistan Special Report Vergewaltigungen | Regionalparlament in Islamabad
تصویر: DW/I. Jabbeen

پاکستان کی انتہائی متحرک سپریم کورٹ نے آج بروز جمعرات اس درخواست کی سماعت کی، جس میں حکومت کی طرف سے حال ہی میں منظور کردہ ایک قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔ عدالت نے اس مقدمے کو سر سری سماعت کے بعد آئندہ ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے مختلف فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔ اس قانون میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ قانون ابھی تک نافذالعمل نہیں ہوا تاہم پارلیمنٹ اور کابینہ اس کی منظوری پہلے ہی دے چکی ہیں۔

پاکستان کے سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی معزولی اور پھر بحالی کے بعد سے عدالت عظمیٰ انتہائی فعال رہی ہےتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

قانون، بینچ اور تنازعات

اس بل نے پاکستان کے پہلے سے گرم سیاسی ماحول کا درجہ حرارت مزید بڑھا دیا۔ نہ صرف یہ قانون تنازعات کا شکار ہے بلکہ اس قانون کے خلاف بننے والے سپریم کورٹ کے بینچ کو بھی متنازعہ قرار دے کر  تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے آج ایک پریس کانفرنس میں علی اعلان اس بینچ کو مسترد کردیا ۔ جبکہ پاکستان بار کونسل نے کل ہی اس بینچ کی تشکیل کے خلاف پورے ملک میں ہڑتال کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف اس مسئلے پرسپریم کورٹ کی مدد کرنے کے لیے تیار نظر آتی ہے اور اس نے سپریم کورٹ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرے بھی کیے ہیں۔

اس معاملے پر نہ صرف سیاسی جماعتیں منقسم ہیں بلکہ تقسیم کی یہ لہر عدلیہ، میڈیا اور وکلا برادری کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

پاکستان کا آئینی و سیاسی بحران: ’بہتری کی کوئی امید نہیں‘

بے بس جمہور

اس ساری صورتحال میں گھرے 22 کروڑ سے زیادہ پاکستانی عوام ہیں، جن میں آٹھ کروڑ لوگ  وہ بھی ہیں جو سطح غربت سے نیچے رہے ہیں۔ بظاہر ان کو ان عدالتی کارروائیوں، قانون سازی، سیاسی بے یقینی اور لاحاصل سیاسی لڑائی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ان کی دلچسپی کا محور ان کے روزمرہ کی ضروریات ہیں، جس کے لئے لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں مفت آٹے کے ایک تھیلے کے لیے درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔

مبصرین اور سیاست دان اس صورت حال کا ذمہ دار مختلف فریقوں کو ٹھہرا رہے ہیں۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ہر قیمت پر عدلیہ کا دفاع کرے گیتصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

’پی ٹی آئی ذمہ دار‘ 

ن لیگ کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے۔ ن لیگ کے رہنما اور خیبر پختونخواہ کے سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران عمران خان کی ضد اور غیر جمہوری پالیسی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی ملک کو انارکی اور عدم استحکام کی طرف لے کر جانا چاہتی ہے لیکن حکومت ایسا نہیں ہونے دے گی۔ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اکتوبر تک انتخابات کا انتظار کرے۔‘‘

سپریم کورٹ فیصلے پر حکومت برہم، پی ٹی آئی کی طرف سے خیرمقدم

بحران آئین سے انحراف کی وجہ سے

تاہم کئی مبصرین اقبال ظفر جھگڑا کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اس بحران کی ذمہ دار وہ طاقتیں ہیں، جو پاکستان میں آئین کی عملداری نہیں چاہتی۔ ان کے خیال میں اگر آئین پر عمل کیا جائے تو موجودہ بحران بھی ختم ہو سکتا ہے اور ملک کو سیاسی عدم استحکام کی دلدل سے بھی نکالا جا سکتا ہے۔

 لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصرحبیب اکرم کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں آئین شکنی کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' جب آئین واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے ٹوٹنے کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانا ضروری ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت 90 دن میں الیکشن کیوں نہیں کرارہی۔‘‘

حبیب اکرم کے مطابق موجودہ گھمبیر صورت حال کا کوئی نتیجہ اس لئے نہیں نکل رہا کیونکہ آئین سے انحراف کیا جارہا ہے۔ ''آئین پرعمل درآمد کیا جائے اور پنجاب اور کے پی میں انتخابات کروائے جائیں۔ اس سیاسی بے یقینی کا حل  نکل آئے گا۔‘‘

پاکستانی کی بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر تصویر: Inter-Services Public Relation Department/AP Photo/AP Photo/picture alliance

جی ایچ کیو کا کردار

پاکستان کی گھمبیر سیاسی صورت حال کو حل کرنے کے لئے ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ مداخلت کر کے اس کا کوئی حل نکالا ہے۔ معروف سیاسی تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں جی ایچ کیو  کا کردار بن سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' انتخابات موجودہ بحران کے مختلف صرف حل میں سے ایک حل ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حل پیش کون کرے گا کہ سارے فریق اسے تسلیم کر لیں۔ ساری سیاسی جماعتیں آپس میں الجھی ہوئی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘

سہیل وڑائچ کے مطابق ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کو ہھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا پڑے گا۔ '' اور جی ایچ کیو جس کا ساتھ دے گا، وہی فریق حاوی ہوگا۔‘‘

سہیل وڑائچ کے مطابق موجودہ بحران کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ''میرے خیال میں ساری سیاسی جماعتیں موجودہ بحران کی ذمہ دارہیں۔ پہلے پاکستان تحریک انصاف نے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر غیر آئینی اقدامات کئے اور اب مسلم لیگ نون کے رویے میں لچک نہیں ہے جس کی وجہ سے بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

اقتدار کی میوزیکل چیئر

موجودہ صورتحال سے صرف عوام ہی پریشان نہیں ہیں بلکہ حکمران اتحاد کی جماعتیں بھی اس پر تحفظات رکھتی ہیں۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میوزیکل چیئر کا گیم لگتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس میوزیکل چیئر کے گیم میں وہی جیتے گا، جو کرسی حاصل کرلے گا۔ سیاسی جماعتوں کی تگ و دو صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہے۔ پہلے تحریک انصاف ہر صورت میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی تھی اور اب پاکستان مسلم لیگ نون اور اس کی اتحادی جماعتیں کرسی سے چپکے رہنا چاہتی ہیں۔‘‘

 

سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن ضروری ہے، عمران خان

16:35

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں