پاکستانی پنجاب سے القاعدہ کے پانچ مشتبہ کارکن گرفتار
27 دسمبر 2019
پاکستان کے مشرقی حصے سے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے پانچ مشتبہ اراکین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے کی گئی اس خصوصی کارروائی میں ملکی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا تعاون بھی حاصل تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی نے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے ادارے کے حکام کے حوالے سے جمعے کے دن بتایا ہے کہ پاکستان کے مشرقی علاقے میں گزشتہ رات ایک چھاپہ مار کر القاعدہ کے پانچ مشتبہ اراکین کو حراست میں لے لیا گیا۔ سینیئر اہلکار محمد عمران نے بتایا کہ یہ کارروائی پنجاب میں کی گئی تاہم انہوں نے مقام کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں۔
محمد عمران نے کہا کہ یہ کارروائی ملک کی اعلیٰ خفیہ ایجنسی 'انٹر سروسز انٹیلی جنس‘ کے اشتراک کے ساتھ کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ یہ گرفتاریاں جمعرات کے دن عمل میں آئیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق مشتبہ افراد کا تعلق القاعدہ کی علاقائی برانچ سے ہے۔ اس برانچ کو 'انڈین برصغیر میں فعال القاعدہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
محمد عمران کے مطابق گرفتار شدگان کا تعلق القاعدہ کے میڈیا سیل سے ہے، جو علاقائی سطح پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مشتبہ شخص جعلی کاغذات بنانے میں بھی ماہر ہے۔ ایک مشتبہ شخص کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا اور پبلیکشن میں مہارت رکھتا ہے۔
سینیئر اہلکار محمد عمران نے مزید کہا کہ چھاپے کے دوران مشتبہ افراد سے دھماکا خیز جیکٹیں، ہتھیار اور برقی آلات بھی ضبط کر لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر یہ لوگ بندر گاہی شہر کراچی میں فعال تھے لیکن حال ہی میں وہ پنجاب کے شہر گوجرانولہ منتقل ہو گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ لوگ القاعدہ تنظیم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے مختلف سرگرمیوں میں بھی ملوث تھے۔
دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن مئی سن دو ہزار گیارہ میں پاکستانی شہر ایبٹ میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اسامہ کی ہلاکت کا آپریشن امریکی نیوی سیلز کی خصوصی ٹیم نے سر انجام دیا تھا۔ اسامہ بن لادن کے بعد ان کے قریبی ساتھی ایمن الظواہری کو اس دہشت گرد نیٹ ورک کا نیا سربراہ چنا گیا تھا۔
ع ب / ک م / خبر رساں ادارے
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔