پاکستانی کرنسی کی قدر میں بین الاقوامی منڈیوں میں کمی پر اس وقت ملکی تاجر برادری بہت پریشان ہے۔ ایک امریکی ڈالر ایک سو تیس روپے سے بھی زیادہ ہو جانے کے نتیجے میں پاکستان میں مہنگائی کے طوفان کا خدشہ بھی زور پکڑ گیا ہے۔
اشتہار
رواں ماہ سولہ جولائی کو اچانک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں پونے سات روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر پاکستان کی مالیاتی تاریخ میں پہلی بار ایک سو اٹھائیس روپے سے تجاوز کرگیا۔ اس طرح پاکستانی روپے کی بے قدری اتنی زیادہ ہو گئی کہ وہ بنگلہ دیشی اور افغان کرنسی سے بھی نیچے آ گیا۔ اس وقت کابل میں ایک امریکی ڈالر ستر افغانی کا اور ڈھاکا میں ایک امریکی ڈالر چوراسی اعشاریہ تین ٹکا کے برابر ہے لیکن پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت ایک سو تیس روپے پچاس پیسے تک پہنچ گئی ہے۔
نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کراچی میں قائم پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے حال ہی میں کہا تھا، ’’ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب اور رسد کی بنیاد پر شرح تبادلہ کا تعین ہو رہا ہے۔ ایسے میں ہم مداخلت کر کے پاکستانی روپے کو مصنوعی سہارا نہیں دے سکتے۔‘‘
ڈاکٹر شمشاد اختر نے روپے کی قدر میں کمی کا ذمہ دار پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو قرار دیا تھا، جو 37 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے منرل واٹر، دودھ، دہی، مکھن سمیت غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی سفارش بھی کی تھی۔
ماہرین کے مطابق راتوں رات امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی گزشتہ سال دسمبر میں امریکی ڈالر چار روپے مہنگا ہو گیا تھا جبکہ رواں سال جنوری اور مارچ میں بھی امریکی کرنسی کی قدر میں دو بار پانچ پانچ روپے اضافہ دیکھا گیا تھا۔ پھر سولہ جولائی کو ایک بار پھر روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 6.75 روپے کی کمی ہوئی، یعنی رواں سال ڈالر کی قدر میں 22 سے لے کر 24 روپے تک کا مجموعی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یوں پاکستان کا درآمدی بل تو بڑھے گا ہی، لیکن ساتھ ہی پاکستان کے ذمے واجب الادا غیرملکی قرضوں کے حجم میں بھی اربوں روپے کا اضافہ ہ چکا ہے۔
کراچی میں کرنسی مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر اسد رضوی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’دسمبر سےاب تک ڈالر 22 روپے مہنگا ہوچکا ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے ملک پر قرضوں کے بوجھ میں 1800 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘
روپیہ: پاکستان کے علاوہ اور کہاں کہاں چلتا ہے
روپیہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کئی اور ممالک کی کرنسی بھی ہے۔ تاہم ان میں ہر ایک ملک کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مختلف ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کن ممالک میں روپیہ زیر گردش ہے۔
تصویر: Fotolia/Unclesam
پاکستان
برصغیر کی تقسیم کے فوری بعد پاکستان نے برطانوی دور کے نوٹ اور سکے ہی استعمال کیے، صرف ان پر پاکستان کی مہر لگا دی گئی۔ تاہم 1948سے پاکستان میں نئے نوٹ اور سکے بننے لگے۔ پاکستانی نوٹوں پر میں ملک کے بانی محمد علی جناح کی تصویر چھپی ہوتی ہے۔
تصویر: AP
بھارت
روپیہ سنسکرت کے لفظ روپيكم سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چاندی کا سکہ۔ روپے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل انگریز حکومت کے روپیہ کے علاوہ کئی ریاستوں کی اپنی کرنسیاں بھی تھیں۔ لیکن 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد روپے کو پورے ملک میں بطور کرنسی لاگو کر دیا گیا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
سری لنکا
سری لنکا کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہی ہے۔ 1825میں برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی سرکاری کرنسی بنا۔ اس سے پہلے وہاں سيلونيج ركسڈلر نام کی کرنسی چلتی تھی۔ انگریز دور میں کئی دہائیوں تک برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی کرنسی بنا رہا جسے اس وقت سیلون کہا جاتا تھا۔ لیکن یکم جنوری 1872 کو وہاں روپیہ سرکاری کرنسی کے طور پر اپنایا گیا۔
بھارت کے پڑوسی ملک نیپال کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہے جو 1932 سے زیر استعمال ہے۔ اس سے پہلے وہاں چاندی کے سکے چلتے تھے۔ نیپال میں سب سے بڑا نوٹ ایک ہزار روپے کا ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
ماریشس
ماریشس میں پہلی بار 1877 میں نوٹ چھاپے گئے تھے۔ شروع میں وہاں پانچ، دس اور 50 روپے کے نوٹ چھاپے گئے۔ تاہم 1919 سے ایک روپے کے نوٹ بھی چھاپے جانے لگے۔ ماریشس میں بڑی تعداد میں ہندوستانی نژاد لوگ آباد ہیں۔ اسی لیے کسی بھی نوٹ پر اس کی قیمت بھوجپوری اور تامل زبان میں بھی درج ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
انڈونیشیا
انڈونیشیا کی کرنسی رُپياه ہے جس کا اصل روپیہ ہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے کم قدر ہونے کی وجہ سے انڈونیشیا میں بڑی مالیت کے نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ وہاں سب سے بڑا نوٹ ایک لاکھ رپياه کا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Indahono
سیشیلز
بحر ہند کے ایک جزیرے پر مشتمل ملک سیشیلز کی کرنسی بھی روپیہ ہی ہے۔ وہاں سب سے پہلے روپے کے نوٹ اور سکے 1914میں چھاپے گئے تھے۔ سیشیلز بھی پہلے برطانوی سلطنت کے تابع تھا۔ 1976میں اسے آزادی ملی۔ سمندر میں بسا یہ ملک اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
تصویر: Fotolia/Unclesam
7 تصاویر1 | 7
اسد رضوی نے مزید بتایا، ’’امریکی ڈالر کی قیمت میں راتوں رات اضافہ اچانک نہیں بلکہ نگران حکومت اور اسٹیٹ بینک کی طرف سے دی گئی ڈھیل کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی مالی صورت حال اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضوں کے حصول کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ سمیت تمام قرض دہندگان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ایکسچینج مارکیٹ میں ڈالر اور روپے کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کہہ چکی ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے افسران کی مدد سے قرضے کا ایک نیا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے تاکہ آنے والی حکومت کو نئے قرضوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا نہ ہ۔‘‘
انٹربینک ریٹ میں امریکی کرنسی کی قدر میں اضافے کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں بھی ایک ہفتے کے دوران ڈالر کی قیمت میں سات سے آٹھ روپے تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جہاں اس وقت ایک ڈالر خریدنے کے لیے ایک سو تیس روپے پچاس پیسے دینا پڑ رہے ہیں۔ یوں پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت سے درآمدکنندگان بھی خاصے مشکل میں دکھائی دے رہے ہیں۔
برما، سری لنکا اور دوسرے ملکوں سے دالوں کے درآمدکنندہ تاجر ہارون اگر کے مطابق، ’’جب ہم کسی ملک کے ساتھ درآمد کے لیے ایل سی کھولتے ہیں، تو ہم موجودہ قیمت پر ہی سودا کرتے ہیں۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ڈالر کی قیمت کچھ اور ہو جاتی ہے اور سودوں میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ روپے کی قیمت میں کمی کے نتیجے میں درآمدی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں کاروبار جاری رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
بھارت میں ’بڑے نوٹ‘ بند، عوام پریشان
بھارتی حکومت کی جانب سے پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں کی بندش کے اعلان کے بعد شہری پرانے نوٹ تبدیل کروانے کی الجھن کا شکار ہیں اور بینکوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں دکھائی دے رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
بھارتی بینکوں کے کاؤنٹروں پر اژدھام
پرانے نوٹوں کی بندش اور تبدیلی کے لیے دستیاب قلیل وقت کے سبب مختلف بینکوں کے سامنے لوگوں کی بہت بڑی تعداد جمع دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
بینکوں کے باہر لمبی قطاریں
خواتین اور بزرگ شہریوں سمیت عام لوگ لمبی لمبی قطاروں میں پرانے کرنسی نوٹ تبدیل کرانے کے لیے بینکوں کے باہر کھڑے نظر آتے ہیں۔ بعض شہری انتہائی ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے بھی اپنے پاس پیسے نہ ہونے کی شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Prakash
ادائیگی شناخت کے بعد
حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پانچ سو اور ہزار روپے کے کرنسی نوٹ تبدیل کروانے کے لیے ہر شخص کی شناخت کے بعد ہی اسے نئے کرنسی نوٹ دیے جائیں گے۔ حکومت اس طریقے سے کالے دھن کا خاتمہ چاہتی ہے، تاہم عام شہریوں کی پریشانی کے پیش نظر اس حکومتی اقدام پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Prakash
بینکوں کے باہر شب بسری
بعض بینکوں کے باہر جلد اپنی باری کے لیے لوگ رات ہی کو آن کر بسیرا کر لیتے ہیں، تاکہ اگلی صبح انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
باری آتی ہی نہیں
کئی بینکوں کے باہر شہریوں کی قطاریں اتنی طویل ہیں کہ لوگ اپنی باری کے انتظار میں گھنٹوں اور بعض صورتوں میں تو پورا پورا دن کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Prakash
5 تصاویر1 | 5
اقتصادی ماہرین امریکی کرنسی کی قیمت میں اضافے کو مستقبل قریب میں ملک میں مہنگائی کے طوفان سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے، ’’پاکستان خام تیل سے لے کر عام استعمال کی بیشتر اشیاء تک درآمد کرتا ہے۔ جب درآمدی لاگت بڑھے گی، تو یقیناﹰ اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ یوں مہنگائی بھی بڑھے گی۔ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کے فوراﹰ بعد ہی درآمدی خشک دودھ، ڈائپرز، ملبوسات، موبائل فون اور گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ سامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ خدشہ ہے کہ رہی سہی کسر بھی جلد ہی پوری ہوجائے گی۔‘‘
دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کرنسی مارکیٹ پر اس کی گہری نظر ہے۔ فی الحال شرح تبادلہ توقع کے عین مطابق ہے، درآمدی ادائیگیوں اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب زیادہ ہے۔ اسی زیادہ طلب کے باعث روپیہ دباؤ کا شکار ہے۔ ان حالات میں اسٹیٹ بینک مارکیٹ میں مداخلت تو نہیں کر رہا، ا لبتہ صورت حال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔
کراچی میں غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کرنے والے ڈیلر فیصل انور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’رمضان کے آخری دنوں سے ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ ہے۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کے پیش نظر لوگ اب ڈالر خرید کر رکھنے لگے ہیں تاکہ ڈالر مزید مہنگا اور روپیہ مزید سستا ہونے پر فائدہ اٹھاسکیں۔‘‘ فیصل انور نے مزید بتایا، ’’روپے کی قدر گرانے کا فیصلہ نگران حکومت اور اسٹیٹ بینک کا تھا، جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت کو پر لگ گئے۔ اس لیے کہ حکومت نے کرنسی مارکیٹ کو فری کر دیا تھا۔‘‘
کپاس سے کرنسی نوٹ تک: یورو کیسے بنایا جاتا ہے؟
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔